ابھی نائن الیون نہیں ہوا تھا۔ دنیا کے نقشے پر نیویارک مین ہیٹن میں واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں بلند وبالا ٹاور سلامت تھے۔نہ دہشت گردی تھی اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ۔، اس سب کے باوجود بھی سب کچھ نارمل نہیں تھا۔ اس لیے کہ جس دن سے افغانستان کے پچانوے فیصد حصے پر طالبان نے اپنی حکومت قائم کرکے یہ ’’مثالیہ‘‘ دنیا پر واضح کردیا تھا کہ شریعتِ اسلامی ایک ایسا نافذالعمل نظام ہے ،جس میں لوگ پرامن اور بے خوف زندگی گزار سکتے ہیں اور وہاں انصاف اور حکومتی رٹ ایسی ہوتی ہے کہ جیسے کسی مغربی جمہوریت یا مشرقی آمریت والے دونوں قسم کے ممالک میں بھی تلاش نہیں کیا جاسکتا، اسی دن سے دوطرح کے طبقات میں ایک مسلسل خوف سرایت کر گیا کہ اگر افغانستان میں یہ ’’ماڈل‘‘ کامیاب ہوگیا ،تو پھر اس کے نفاذ کی خواہش تقریباً ہر مسلمان قومی ریاست میں ضرور پیدا ہوگی اور عین ممکن ہے کہ زیادہ نام نہاد ترقی یافتہ مسلمان ملک بھی طالبان کے ماڈل کو اپناتے ہوئے اپنے نظام میں ایسی تبدیلیاںکرلیں کہ یہ نظام اسی طرح مغربی کارپوریٹ جمہوریت کے لیے ایک خطرہ بن جائے جیسے پچھتر سال قبل روس کا کیمونزم یا چین کے ماؤزے تنگ کا سرخ انقلاب بن گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی عالمی طاقت ’’امریکہ‘‘ اپنے حواریوں کے ساتھ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے در پہ ہوگئی اور اسکے ساتھ ہی تمام مسلمان ممالک کے حکمران ، جو بظاہر مسلمان کہلاتے تھے مگر اپنی بود و باش، طرزِ زندگی، خیالات و نظریات اور ہوسِ اقتدار کے حوالے سے مکمل طور پر سیکولر اور لبرل تھے، وہ سب کے سب اس خوف سے طالبان کے خلاف متحد ہوگئے کہ کہیں ایک دن رائے عامہ ان کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہو،اور ایک ایک کرکے ستاون مسلمان ممالک پر قابض ’’سیکولر جمہوریے‘‘ یا سیکولر ڈکٹیٹروں کے اقتدار کا خاتمہ نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے خلاف اسقدر نفرت عالمی برادری میں نہیں پائی جاتی، جس قدر نفرت، مسلمان ملکوں کے حکمرانوں اور سیکولر لبرل طبقات میں آج بھی پائی جاتی ہے۔یہاں تک کہ وہ تمام علمائے کرام جو نسل در نسل کئی صدیوں سے ملوکیت، آمریت اور جمہوریت زدہ رہے ہیں اور نام نہاد مسلمان حکومتوں کی چھتری تلے چین کی زندگی گزار رہے ہیں، انہیں بھی جب اپنی محدود ’’مدرسہ جاتی سلطنتوں‘‘ کی بربادی کا خطرہ لاحق ہوا تو سب طالبان کے تصورِ حکومت کے خلاف بولنے لگے۔حالانکہ یہ علماء جانتے تھے کہ افغانستان میں جو دین نافذ ہے اس کی اکثریت صحیح ہے، لیکن تمام مسالک کے اہم علماء کتنے آرام سے یہ کہنے لگے کہ ’’ہمیں طالبان والا اسلام نہیں چاہیے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے خلاف پراپیگنڈہ کی مہم ،مسلمان ممالک میں مغرب کی نسبت زیادہ زور و شور سے چلائی گئی۔ مغربی استعماری طاقتیں بھی طالبان کے وجود کو اس خطے کے وسائل پر قبضے کے راستے میںبہت بڑی رکارٹ خیال کرتی تھیں لیکن مسلمان ممالک کی مخالف نفاذِ شریعت کے خوف کی وجہ سے تھی۔ روس اور چین اپنے اندر موجود مسلمان اقلیتوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے ڈر سے طالبان کے خاتمے پر راضی تھے۔یہی وجہ ہے کہ طالبان کے خلاف نائن الیون سے بہت پہلے ہی ایک جال پھیلایا جا چکا تھااور افغانستان پر حملے کی تمام منصوبہ بندی مکمل ہوچکی تھی۔ پاکستان کے ایک سابقہ سیکرٹری خارجہ، نیاز اے نائیک جو بھارت اور پاکستان کے درمیان بیک چینل سفارت کاری کے لیے بہت شہرت رکھتے تھے، اور اپنے کیئریر کے آخر میں تو وہ عالمی اسٹبلشمنٹ کا اہم استعارہ بن چکے تھے۔ انہوں نے گیارہ ستمبر کے واقع سے بہت پہلے امریکی حکومت کے ارادوں اور منصوبہ بندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں جولائی 2001ء میں امریکیوں نے یہ بتا دیا تھا کہ امریکہ تاجکستان سے اپنے حملے کا آغاز کرے گا، جہاں پر امریکہ کے عسکری ایڈوائزر پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔ ازبکستان بھی اس میں حصہ لے گا اور روس نے اپنے سترہ ہزار فوجی بھی اس زمین پر حملے کیلئے تیار کر رکھے ہیں۔ نیاز اے نائیک نے یہ گفتگو سب سے پہلے ایک فرانسیسی ’’چینل 3‘‘ کے پروگرام میں مشہور اینکر پرسن پیئرابراموویسی (Pierre Abramovici) کے ساتھ کی تھی۔ پھر اسکے بعد اس نے یہی گفتگو مشہور اخبار ’’گارڈین‘‘ (Guardian) میں نائن الیون سے کئی ماہ پہلے دہرائی۔ جب گیارہ ستمبر ہوگیا لیکن امریکہ نے ابھی افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا تو بی بی سی نے 18ستمبر 2001ء کو نیاز اے نائیک کے اس انکشاف پرمضمون تحریر کیا۔ یہ انکشاف اتنا غیر اہم نہیں تھا، کیونکہ اس انکشاف کا ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ امریکہ وقت سے پہلے اپنے تمام حواریوں کی اس جنگ میں اپنے لیے وفاداری پکی کر رہا تھا۔ نیاز اے نائیک اور اس جیسے بیشمار لوگوں کی ’’سازشی باخبری‘‘ اور طالبان کے خلاف مکمل سازش کا انکشاف افغانستان پر حملے کے صرف تین دن ماہ بعد چھپنے والی شاید پہلی کتاب میں کیا گیا، جو یکم جنوری 2002ء کو منظر عام پر آئی۔ اس کتاب کا نام ’’ممنوعہ سچ‘‘ (Forbidden Truth)تھا،اور اسے دو مصنفین جین چارلس بسارڈ (Jean Charles Brisard) اور گلیمی ڈایسکو(Guillaume Dasquie)نے تحریر کیاتھا۔ بیس سال بعد آج یہ سب کچھ یاد کرنے کا صرف ایک مقصد ہے کہ عالمی اتحاد اور ستاون نام نہاد مسلمان ممالک آج بھی اپنے مذموم مقاصد اور عزائم ہی نہیں بلکہ اپنے گھناؤنے طریق کار کے اعتبار سے بھی نہیں بدلے۔ طالبان کی 1996ء میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا ایک عذر دیا جاتا تھا کہ یہ ’’وسیع البنیاد‘‘ حکومت نہیں ہے ،یعنی تمام گروہ طالبان کو اپنا سربراہ نہیں مانتے۔ گروہ بھی وہ یعنی شمالی اتحاد جس کے پاس صرف پانچ فیصد افغانستان تھا اور اسے ان طاقتوں کی اعلانیہ حمایت حاصل تھی۔ یہ غیر حقیقی مطالبہ 1989ء میںاسوقت بھی کیا گیاتھا، جب سوویت یونین افغانستان سے نکلا تو ضیاء الحق کے منہ میں بھی وسیع البنیاد حکومت کے الفاظ ڈال دیئے گئے۔ کیا دنیا میں اس نام کی کوئی ’’چڑیا‘‘ وجود رکھتی ہے۔ کیا عمران خان، نوازشریف اور زرداری مل کر پاکستان میں وسیع البنیاد حکومت بنا سکتے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی اور سونیا گاندھی یا پھر امریکہ میں جوبائیڈن اور ٹرمپ کی وسیع البنیاد حکومت بن سکتی ہے۔ آج طالبان سے انسانی حقوق، حقوقِ نسواں اور آئینی جمہوریت کے مطالبے وہ اسلامی ممالک کر رہے ہیں جن کے اپنے ملک ان تصورات کو ترستے ہیں۔ کیا اشرف غنی یا حامد کرزئی کی حکومت وسیع البنیاد تھی جسے ان تمام ’’بے اصول‘‘ حکمرانوں نے صرف اس لیے تسلیم کر لیا کہ ان کی جبینیں اللہ کی بجائے عالمی طاقتوں اور جدید ٹیکنالوجی کے سامنے سجدہ ریز ہوتی تھیں۔ کیا آج اٹھارہ سال گزرنے کے بعد اور چودہ لاکھ انسانوں کے قتل عام کے بعد عراق میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم ہو چکی ہے، جسے ہر ملک نے تسلیم کررکھا ہے۔ طالبان کی حکومت اور باقی تمام حکومتوں میں فرق صرف ایک ہی ہے کہ باقی تمام حکومتیں پوری دنیا میں رائج اور نافذ العمل نظام ِ حیات یاطرزِ زندگی (Life Style)کو چیلنج نہیں کرتیں۔ لیکن طالبان کی گذشتہ حکومت کے دروازے پر بیس سال پہلے بھی جمہوریت، عالمی مالیاتی نظام کی سودی معیشت، آزادی نسواں، خاندانی نظام کی برباد صورتحال اور مادرپدر آزاد معاشرت جیسے تصورات ایک شجر ممنوعہ تھے اور آج بھی بالکل ویسا ہی ہوگا۔ لیکن طالبان بیس سالہ جنگ کے بعد آج ایک ایسی مسلمہ حقیقت بن کر سامنے آچکے ہیں کہ ان کو اقتدار میں آنے سے اب کوئی طاقت روک نہیں سکتی ۔اس لیے سیکولر لبرل مغرب زدہ مسلمان ملکوں کے حکمران اور دانشور کس قدر لجاجت اور کسمپرسی کے عالم میں طالبان قیادت کے متعلق کہتے پھرتے ہیں کہ ’’اب یہ بہت بدل چکے ہیں، اب یہ پہلے جیسے نہیں رہے، اب یہ آئے تو دنیا بھر کو قابلِ قبول ہوں گے‘‘۔ طالبان یقینا بدلے ہیں اور صرف اتنے بدلے ہیں اب ان میں بیس سال پہلے والی ’’سادہ لوحی‘‘ نہیں رہی۔ اب وہ جان چکے ہیں کون کس جانب سے حملہ آور ہوتا ہے اور کون اصل میں کس کا وفادار ہے۔ کون کس کا طوطا ہے اور اس کی جان کس کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے ان بیس سالوں میں اپنے پانچوں مسلمان پڑوسیوں کی بے وفائی بھی دیکھی ہے اور منافقت بھی، عالمی طاقتوں کا کھوکھلا پن بھی سمجھا ہے اور اپنے ایمان کی قوت کا اندازہ بھی کیا ہے ۔وہ بہت بدل چکے ہیں۔ مگر ان کے مخالف شاید ایک انچ بھی نہیں بدلے۔ جس پرانے جال کو طالبان نے توڑ کر ٹکڑے کردیا تھا، یہ بیس سال بعد اسی جال میں پھر انہیں پھنسانا چاہتے ہیں۔