پنجاب میں کون پارٹی حکومت بنائے گی یہ سوال پوچھنے والا ہی نہیں۔ نمبر گیم 26جولائی کو ہی پی ٹی آئی کے حق میں ہو چکی تھی۔ پھر بھی ٹی وی چینل اس سوال پر ٹاک شو کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ بیکار مباش ٹاک شو کیاکر والا معاملہ ہے۔ ایسے سوالوں پر ٹاک شو نہ کریں تو کس پر کریں۔ ظاہر ہے ٹی وی مالکان سیانے ہیں اپنے چینل بند کرانے کی خودکشی کیوں کریں گے۔ چوکنّے بیل کو دعوت دینا کسی سمجھدار آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔ اچھا‘مزے کی بات ہے کہ نمبر گیم پوری ہونے کا کریڈٹ اسی لیے جہانگیر ترین کو دیا جا رہا ہے۔ بظاہر تو اس میں حرج نہیں۔ کیونکہ وہی ہیں جو جہاز میں اڑے اڑے پھرتے ہیں آزاد امیدواروں کو ڈھو ڈھو کر بنی گالہ کی سیر کراتے ہیں ۔ ایک ایک دن میں چار چار پھیرے انہوں نے لگائے۔ کریڈٹ دینے میں کیا خرابی ہے۔ کوئی خرابی نہیں لیکن جہانگیر نے اصل میں کچھ نہیں کیا۔ جملہ نہیں تو آزاد امیدواروں کی بھاری اکثریت ٹیلی فون کی وساطت سے 26ہی کو مشرف بہ انصاف ہو چکی تھی۔ جہانگیر کی ساری بھاگ دوڑ ٹیلی فون کی پردہ داری کے لیے ہے۔ جہازی بابا پرلطف تماشا دیکھنے والے تماشائیوں کی نظر بندی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور بس۔ ٭٭٭٭٭ گنتی پوری ہو چکی ہے لیکن وزیر اعلیٰ کون ہو گا۔ یہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔ شاید آج کل میں طے ہو جائے۔ سنا ہے شاہ محمود قریشی بھی امیدوار ہیں۔ اصرار کر رہے ہیں کہ دوست محمد کھوسہ کی طرح کسی کو بھی تین مہینے کے لیے وزیر اعلیٰ بنا دو‘ پھر میں ضمنی الیکشن جیت کر آ جائوں گا اور گدی سنبھال لوں گا۔ اس دوڑ میں کئی اور کا نام بھی ہے اور ان امیدواروں میں ایک صاحب یاسر نام کے بھی ہیں جو سزا یافتہ نکلے ہیں۔ خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر پی ٹی آئی ان کے نام پر قرعہ نکال لے تو ان کے لیے صادق و امین کا سرٹیفکیٹ دو ہی دن میں مل جائے گا۔ صادق و امین ہونے کے بہت فائدے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں ایسے بہت سے لوگ تھے جو پی ایچ ڈی اور ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ اس الیکشن میں محض ایم اے، بی اے رہ گئے۔ کئی ایم اے تھے۔ اس الیکشن میں خود کو انٹر پاس دکھایا۔ کچھ انٹر پاس تھے محض میٹرک رہ گئے۔ صادق و امین ہونے کا بھی فائدہ دیکھ لیجیے‘ جب چاہا پیچھے کو زقند لگالی۔ صداقت، امانت، دیانت پر کوئی حرف آیا نہ آ سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ حرف آنے سے سراج الحق کا بیان یاد آیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے فرمایا ہے کہ ملکی وقار پر حرف آیا تو خاموش نہیں رہیں گے۔ وقار پر حرف سے بات آگے جا کر لفظ آنے تک پہنچ چکی ہے۔ یعنی ملکی وقار پر ’’ملفوظات‘‘ آ چکے ہیں لیکن سراج الحق خاموش رہیں گے۔ اس لیے کہ بولنے کی شرط حرف آنے سے مشروط ہے۔ لفظ آنے سے نہیں۔ سنا ہے الیکشن میں ’’شفافیت‘‘ پر وہ بھی سخت صدمے میں ہیں اور حرف آنے والی بات پر بولنے کی بات دراصل ان کا انتباہ ہے کہ کبھی نہ کبھی بول اٹھوں گا۔ وہ سند یافتہ صادق و امین ہیں۔ دیکھ لیں‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بول اٹھیں اور ان سے سند واپس لے لی جائے۔ ٭٭٭٭٭ موقر انگریزی اخبار کی رپورٹ ہے کہ ’’تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ پریذائیڈنگ افسروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ آر ٹی ایس کا استعمال نہ کریں یہ نظام کبھی کرش نہیں ہوا تھا‘‘ چیف الیکشن کمشنر کی پریس کانفرنس تھی کہ انتخابی نتائج جو یکایک آٹھ بجے کے بعد آنے بند ہو گئے تھے اور پھر اگلے دن تک بند ہی رہے تھے تو اس کی وجہ آر ٹی ایس نظام کا بیٹھ جانا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر صادق و امین ہونے کی بہت سی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اسی لیے عوام کی اکثریت نے ان کے بیان پر اعتبار کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ صورتحال صاف بتا رہی تھی کہ آرٹی ایس کا نظام بیٹھا نہیں تھا‘ بٹھایا گیا ہے۔ بہرحال آر ٹی ایس نظام کے بیٹھنے کے اندر ہی سے اور بھی کئی شاخسانے نکلے‘ پولنگ ایجنٹ مار بھگائے گئے (شکر ہے مار گرائے نہیں گئے) ووٹ دھڑا دھڑ مسترد ہونے لگے ماضی میں ایک بار کے سوا ہر بار مسترد بیلٹ پیپرز کی گنتی ایک لاکھ سے کم ہی رہی‘ یعنی ہزاروں میں صرف ایک بار گنتی ایک ڈیڑھ لاکھ رہی۔ اس بار تو شفافیت کا مکھڑا یوں بے حجاب ہوا کہ سترہ لاکھ ووٹ مسترد ہو گئے ایک حلقے سے مسلم لیگ ن کے 7ہزار ووٹ مسترد ہوئے‘ تحریک کے سارے ووٹر ایم اے پی ایچ ڈی تھے۔ مہر لگانے کا طریقہ جانتے تھے لیگ کے ان پڑھ تھے۔ اس بار کچھ زیادہ ہی ان پڑھ ہو گئے۔ ٭٭٭٭٭ یہ نظریے کی جنگ ہے۔ کسی آزاد امیدوار کی گنجائش نہیں۔ آزاد امیدواروں کو مسترد کر دیں گے۔ آزاد امیدوار جیت کر ہماری تحریک میں آنے کی کوشش مت کریں انہیں ہم کبھی قبول نہیں کریں گے‘‘ یہ خطاب 25جولائی کے الیکشن سے چند روز ایبٹ آباد کے جلسے میں کیا گیا تھا۔ خطاب کرنے والی صادق و امین ہستی کون تھی۔ بوجھو تو جانیں اگر بوجھ لیں تو بتائیے مت ورنہ پانچ سال کی نااہلی ہو سکتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ انتخابات میں غیر موعودہ شکست پر جی ڈی اے کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پیر صاحب نے فرمایا تھا‘ جھگڑا پنجاب سے تھا۔ رگڑا ہمیں کیوں لگا دیا۔ پیر صاحب کی اس حق گوئی پرکوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔