پروفیسرابراہیم ارمان لونی کو ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا کردیاگیا،اناللہ واناالیہ راجعون۔کیا خوش طبع وخوش رنگ انسان اورکمال کے شاعر تھے۔ بجاکہاہے فرنود عالم صاحب نے کہ''ارمان!تْو زمیں زاد نہ ہوتے تو ستارہ ہوتے ''۔ارمان لونی کی جدائی نے نہ صرف مجاورانِ ادب کو آٹھ آٹھ آنسو رلادیا بلکہ ان کی غیرطبعی موت نے پوری قوم کو دکھی کردیا۔ مجھے یقین ہے کہ اْن کے بہیمانہ قتل کے بعد سوشل میڈیا پرگردش کرنے والے اس ویڈیو کلپ نے بھی ہرکسی کو جھنجھوڑکے رکھ دیاہوگا جس میں چارپائی پر ابدی نیند سوئے ہوئے ارمان سے ان کی ضعیف مگر باہمت ماں کمبل سرک کر اس کی پیشانی پر چومتے ہوئے دردبھرے لہجے میں کہتی ہے کہ ''آہ اْن کابدن کس طرح ٹھنڈا ہے (وش سنگہ سوڑ دی )۔بے شک ، ارمان کے بچھڑنے کی ادا کچھ ایسی تھی کہ چاردانگ عالم کی رْت بدل گئی ،اور ہرطرف ویرانی وماتم نے اپنے پنجے گاڑ دیئے۔شاید مرحومہ پروین شاکرنے ارمان جیسے لوگوں ہی کے بارے میں کہاتھا، بچھڑاکچھ اس ادا سے کہ رْت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا ارمان لونی سے میری پہلی ملاقات دس سال پہلے ادبی حوالے سے ہوئی تھی۔ 2012 ء میںبلوچستان پبلک سروس کمیشن سے لیکچرر شپ کا امتحان پاس کرکے ہم دونوں ایک دوسرے کے ہم منصب بن گئے۔ بعدمیںان کی تعیناتی کوئٹہ کے ایک ڈگری کالج میں ہوئی جبکہ راقم اور جناب میرحسن اتل نے ژوب ڈگری کالج میں درس وتدریس کے فرائض سنبھال لیے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ارمان حقیقی معنوں میں ایک مجسم ارمان تھے۔ان کاسینہ اِن گنت ارمانوں اور خواہشات کا خزانہ تھا جس میں وہ ہر ارمان کے پورا ہونے کیلئے ہمہ وقت بے تاب رہتے تھے۔بقول غالب، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مِرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے ارمان اپنے دیس کے مظلوموں اور بے کسوںکے ساتھی تھے۔ظلم وجبر اور استحصال کی جن زنجیروں نے اس معاشرے کو جکڑا ہواتھا، ارمان نے اسے توڑنے ، ٹکڑے کرنے اور بکھیر نے کی ٹھان لی تھی۔اسی لئے تو انہوں نے نہ صرف مزاحمتی شاعری کے ذریعے ان مصائب کا مقابلہ کرناکافی سمجھا بلکہ پوری استقامت کے ساتھ عملی جدوجہد کے میدان میں بھی وارد ہوئے۔ چونکہ اس مختصرادبی تحریر میں ہم ارمان لونی کی سیاسی سرگرمیوں پر بحث کرنے سے قاصر ہیں یوں فقط ان کی زندگی کی ادبی پہلووں پر کچھ تاثرات قلمبند کرسکتے ہیں۔ارمان لونی ایک حساس دل رکھنے والے پشتو شاعر اور لکھاری تھے۔ اپنی شاعری کو انہوں نے محض قافیہ پیمائی اور الفاظ کی ہیراپھیری تک محدود نہیں کیا تھابلکہ وہ اپنے اندر کے حساس اور گھائل انسان سے الہام لیتے اور شعر تخلیق کرتے تھے۔ اپنی قوم کی زبوں حالی اور آلام پر شعر کہنااور لکھنا ارمان کا ہمیشہ سے مطمح نظر رہاتھا۔اردو کے انقلابی شاعر حبیب جالب کی طرح ارمان لونی نے بھی اپنے آپ کو قوم اور مظلوم طبقات کاایک بے باک وکیل ثابت کیا۔ان کی شہادت کے بعد سوشل میڈیاپروائرل پشتو مشاعرے کی ایک ویڈیوکلپ میں ارمان لونی کی غزل کے چند اشعار کا ترجمہ قارئین یہاں ملاحظہ کرسکتے ہیں،جس میں وہ بے بسی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں '' کیا آپ ان مظالم کو دیکھ نہیں پارہے ہو یا تم نے جان بوجھ کر چپ کا سادھ لیاہے، مَیں ظالم کے ہاتھوں قتل ہورہاہوں اور تْو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہو۔یاتومیںتجھے سرے سے انسان ہی نہیں لگتاہوں یا پھر انسانی حقوق کے حوالے سے تمہارے بلند بانگ دعوے فقط دروغ اور منافقت ہے کہ دوسروں کو تو انسان سمجھتے ہواور مجھے انسانوں میں شمار کرنے سے کترارہے ہو''۔ تمام ترسیاسی ،تدریسی اور گھریلومصروفیات کے باوجود ارمان لونی آج کل بلوچستان یونیورسٹی سے ایم فل بھی کررہے تھے اورچند ماہ قبل اپنے نادر تحقیقی موضوع '' پشتو ادب میں نوآبادیاتی دشمن کے خلا ف علامتوں کا استعمال ''پر دو تحقیقی مقالے بھی اپنے سپروائزر کے پاس جمع کرالیے تھے۔اسی طرح ادبی تنظیمی حوالے سے آج کل ارمان لونی پشتون مترقی لیکوال کے صوبائی سیکرٹری جنرل کے طورپر اپنے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔کوئٹہ سے لے کر خیبر پختوانخوا اور قبائلی علاقوںتک مذکورہ ادبی تنظیم کا شاید ایسا پروگرام ہو جس میں ارمان لونی نیشرکت نہ کی ہو۔ ادبی محفلوں خصوصاً مشاعروں میں سامعین جتناارمان لونی کی غزل سے محظوظ ہوتے تھے وہاں ان کی خوش گپیاں بھی ان کیلئے باعث تفریح کا باعث بنتے تھے۔ترقی پسند رجحانات کی طرف میلان رکھنے اورفرسودہ روایات کو توڑنے والے ہمارے اس زوانی مرگ شاعر کی یوں توبے شمارغزلیات اور تحریریں وقتاً فوقتاً مختلف پشتو جریدوں میں طبع ہوتی رہیں لیکن کتابی صورت میں تاحال شائع نہیں ہوپائی ہیں۔امید کرتاہوں کہ ان کی پشتو شاعری اور مضامین بھی کتابی صورت میں عنقریب منصہ شہود پر آکر قارئین تک پہنچ جائیں گی۔ارمان! خدا تجھے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔