میں پروفیسر وارث میر کی کلاس میں تھا نہ ان کے شعبے میں، مگر وہ میرے استاد تھے۔ بحیثیت استاد میں نے ان سے بہت کسب فیض کیا۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں جناب وارث میر ہمارے ہاسٹل کے وارڈن تھے۔ پہلی ہی ایک دو ملاقاتوں میں میر صاحب کی خوش خلقی اور شگفتہ مزاجی نے ہمارا دل موہ لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہم ابھی لڑکے اوروارث میر صاحب کے صاحبزادے حامد میر اور ان کے بھائی ابھی ’’بچے‘‘ تھے۔ پروفیسر وارث میر نے ہمارے اندر تحریر و تقریر کے کچھ امکانات دیکھ کرہماری بہت حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے مجھے ہاسٹل سیکرٹری مقرر کر دیا۔ میری اور ہاسٹل کمیٹی کی درخواست پر میر صاحب نے ہاسٹل کی افتتاحی تقریب کے لئے اپنے دور کے ممتاز افسانہ نویس ڈرامہ نگار اور ریڈیو کے ہر دلعزیز آرٹسٹ جناب اشفاق احمد کو مدعو کر لیا۔ اس وقت تک جناب اشفاق احمد خاصے لبرل سمجھے جاتے تھے اور ابھی تک ’’صوفی اشفاق احمد‘‘ یا ’’بابا اشفاق احمد‘‘ نہ بنے تھے اس لئے ہم نے بھی اپنے خطبہ استقبالیہ میں اپنے لڑکپن کا فائدہ اٹھایا اور کچھ لبرٹی بھی لی، مگر حفظ مراتب اور ادب کے تمام قرینوں کو مکمل طور پر ملحوظ خاطر رکھا۔ اس طالب علمانہ کاوش یا جسارت کی جناب اشفاق احمد اور جناب پروفیسر وارث میر نے حوصلہ افزائی کی۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ملک میں سیاسی چپقلش اور اسلام و سوشلزم کے درمیان فکری آویزش زوروں پر تھی۔ پروفیسر وارث میر نے جناب اشفاق احمد کا بھر پور تعارف کروایا اور ان کی کثیر الجہات شخصیت کے ان امکانات کا بھی مختصر تذکرہ کیا جو امکانات ابھی منظر عام پر نہ آئے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس محفل میں جناب اشفاق احمد نے اپنے استاد کا تذکرہ کیا اور مائوزے تنگ کے بارے میں اپنے تاثرات ہمیں بتائے اور سوشلزم کے فضائل پربھی قدرے روشنی ڈالی۔ میں ایم اے معاشیات کا طالب علم تھا اور اسلامی اقتصادیات کا ایک پرچہ میری خصوصی دلچسپی کا حامل تھا۔ میں اپنے کچھ ساتھیوں سمیت مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی عصری محفلوں میں بھی گاہے گاہے حاضری دیتا تھا جو مولانا کی رہائش گاہ 5اے ذیلدار پارک اچھرہ میں منعقد ہوتی تھی۔ اس دور میں مولانا مودی نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک ہمارے سر ہماری گردنوں پر قائم ہیں اس وقت تک اس ملک میں سوشلزم نہیں آ سکتا۔ اس ذہنی پس منظر کے ساتھ ہم کنٹرولڈ نہیں آزاد معیشت کے حامی تھے۔ ہم نے جناب اشفاق احمد سے اس حوالے سے ایک دو سوالات پوچھے جن کے جوابات انہوں نے کسی طنز اور تلخی کے بغیر نہایت شفقت سے دیے اور ہمیں ہر طرح کے تعصب سے ماورا ہو کر مزید مطالعے کی تلقین کی۔ اس موقع پر جناب اشفاق احمد اور جناب پروفیسر وارث میر کے درمیان شگفتہ جملوں اور ہنسی مزاح کی پھلجڑیوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا، جن سے ہم طلبہ لطف اندوز بھی ہوئے اور ان کی باہمی معلومات سے مستفید بھی ہوئے۔استاد گرامی جناب ڈاکٹر خورشید رضوی کا نہایت خوبصورت شعر ہے کہ : سو بار لٹ گیا لب تک آتے آتے ہر سخن وگرنہ جب دل سے چلا تھا اک عجب گنجینہ تھا جناب وارث میر کے ساتھ یہ معاملہ نہ تھا۔ وہ دل سے چلے ہوئے گنجینے کو کہیں راستے میں لٹنے نہ دیتے۔ وہ ہر طرح کی مصلحت و مداہنت سے بے نیاز ہو کر دل کی بات کو زبان پر لے آتے۔ یہی رویہ ان کا اثاثہ بھی تھا اور ان کا ’’خسارہ‘‘ بھی۔ ان کی یہی حق گوئی کبھی انہیں ’’سوشلسٹ‘‘ بنا دیتی اور کبھی اسلام پسند۔ جناب وارث میر کے ساتھ اپنے ذاتی تعلق خاطر اور ان کے ساتھ بیتے ہوئے ایام کی روشنی میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ سچے اور پکے مسلمان تھے۔ میں 1970ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کا طالب علم تھا اور یونیورسٹی سیاست میں دل چسپی بھی لیتا تھا مگر مباحثوں کا مقرر ہونے کے باوجود سنائی کم دیتا اور دکھائی تو بہت کم دیتا تھا۔ کم ہی دوستوں کو علم ہے کہ برادرم حفیظ خان کو اس دور کی یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے اور ان کے گھر والوں سے اجازت حاصل کرنے میں یہ فقیر پیش پیش تھا۔ اس دور کی مخصوص تعلیمی و سیاسی فضا میں حفیظ خان جیسے ’’قدرے لبرل‘‘ طالب علم کو یونین کی صدارت کے لئے بطور امیدوار لانا اسلامی جمعیت طلبہ کا بہترین فیصلہ تھا اس زمانے میں اپنا مسلک بقول ڈاکٹر خورشید رضوی یہ تھا کہ : یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو جب حفیظ خان 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے تو پروفیسر وارث میر صاحب سٹوڈنٹس یونین کے یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے سٹوڈنٹس ایڈوائزر تھے۔ اس حوالے سے ان کے بارے میں سبزوں اور سرخوں میں طرح طرح کے خیالات پائے جاتے تھے مگر انہوں نے یہ فریضہ خوش اسلوبی ہنر مندی اور غیر جانبداری کے ساتھ انجام دیا اور یونین کے عہدے داروں کے ہی نہیں بلکہ عام طالب علموں کے دلوں میں بھی۔ کئی دہائیوں کے بعد جب 21ویں صدی کے اوائل میں یہ فقیر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں سٹوڈنٹس ایڈوائزر بنا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ کام پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ پروفیسر وارث میر پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے طلبہ کہ جن میں حفیظ خان اور جاوید ہاشمی بھی شامل تھے، انہیں لے کر 1971ء کے اس دور میں مشرقی پاکستانی بھائیوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کے مشن پر ڈھاکہ گئے ،جب بہت دیر ہو چکی تھی۔ مکتی باہنی کے خلاف فوجی آپریشن شدت سے شروع ہو چکا تھا اس آپریشن کے دوران گندم کے ساتھ بہت سا گھن بھی پس چکا تھا اور ساری دنیا پر ہندوستانی پروپیگنڈا چھا چکا تھا۔ پروفیسر وارث میر ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے ڈھاکہ و چٹاگانگ گئے تھے مگر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ وہاں سے لوٹے۔ واپس آ کر انہوں نے ملٹری آپریشن کے خلاف لکھا اور اس دور میں یہ جرأت رندانہ کسی جہاد سے کم نہ تھی۔ گزشتہ تقریباً نصف صدی کے دوران سقوط ڈھاکہ‘ مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن اور دو قومی نظریے کے حوالے سے ملکی و غیر ملکی رائٹرز نے کئی کتابیں لکھیں اور کئی چشم کشا تجزیے پیش کئے ہیں۔ یہ سانحہ دنوں یا ہفتوں میں برپا نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں تک جانے انجانے میں اس کی اپنوں نے پرورش کی اور غیروں نے سازشوں کے جال بنے۔ ان سب تحریروں اور تجزیوں کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں‘ جرنیلوں اور سول افسروں نے بالغ نظری کا ثبوت نہ دیا، ہر کوئی اپنے اپنے مقاصد کے لئے وسیع تر قومی مفادات کو نظر انداز کر کے سرگرم عمل رہا۔ پروفیسر وارث میر نے نہ صرف سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں لکھا بلکہ سول حکمرانی کے راستے میں حائل فوجی مداخلت کے بارے میں اپنا نقطہ نظر وضاحت و صراحت کے ساتھ پیش کیا۔ میر صاحب نے جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے اور ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر بھی نڈر ہوکر لکھا۔ تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں انتہائی خوفناک نتائج سے دوچار ہونے کے باوجود ہر وقت انہی غلطیوں کو دوہرانے پر مصر کیوں رہتے ہیں؟ ہم سب پروفیسر وارث میر کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لئے دعاگو ہیں۔