وفاقی حکومت نے آئیل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لیٹر25روپے 58پیسے تک کے اضافہ کی منظوری دیدی ہے۔ ملک میں کاروباری مندی‘بے روزگاری اور بے قابو ہوتی مہنگائی کی موجودگی میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں یک لخت اس قدر اضافے نے عوامی سطح پر حکومتی فیصلے پر شدید ناراضی اور تنقید کا دروازہ کھول دیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی نئی قیمت 100روپے 10پیسے مقرر کی گئی ہے ڈیزل کی قیمت 21روپے 31پیسے فی لٹر اضافے کے بعد 101روپے 46پیسے‘ مٹی کے تیل کی قیمت ساڑھے 23روپے فی لٹر اضافے کے بعد 59روپے 6پیسے مقرر کی گئی ہے۔ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 17روپے 84پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ حالیہ برس مارچ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی میں انتہائی نچلی سطح پر جا پہنچیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں لاک ڈائون اور کاروباری و صنعتی سرگرمیاں بند ہونے کے باعث تیل کی طلب میں نمایاں کمی ہوئی۔ صورتحال یہاں تک جا پہنچی کہ امریکہ میں تیل کمپنیوں کے ذخائر میں گنجائش نہ رہی۔ پائپ لائنوں اور سمندر میں تیل ذخیرہ کیا جانے لگا۔ ان دنوں امریکہ میں تیل کی قیمتیں منفی درجہ پر دیکھی گئیں۔ پاکستان اپنی ضروریات کے لئے تیل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے حاصل کرتا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں تیل پیدا کرنے والے 14ممالک کی تنظیم نے ان دنوں روس سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی طلب میں کمی کے باعث اپنی پیداوار میں کمی کرے۔ اس معاملے پر فریقین میں مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد سعودی عرب نے اپنے تیل کے نرخوں میں کمی کا فیصلہ کیا۔ اس کمی کے نتیجے میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ 20سے 25ڈالر فی بیرل تک ہو گئے۔ ایسے موقع پر پاکستان کے بعض معاشی ماہرین نے پیشنگوئی کی کہ پاکستان تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اٹھا کر معاشی مشکلات سے نجات حاصل کر لے گا۔ اس موقع پر حکومت کی طرف سے افسوسناک طرز عمل یہ دیکھا گیا کہ عوامی سطح پر مسلسل کئی ہفتوں کے مطالبے کے بعد حکومت نے تیل کے نرخوں میں کمی کا اعلان کیا۔ بعدازاں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے دوران بھی حکومت نے قیمتوں میں کمی کا عمل سست رکھا۔ پاکستان سالانہ 13سے 14ارب ڈالر کا تیل اور ایل این جی درآمد کرتا ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں 30سے 40فیصد کمی گویا ایک غیبی امداد تھی۔ اس صورت حال میں حکومت نے پٹرول کے نرخ 107روپے سے مرحلہ وار کم کر کے 71روپے فی لٹر کے قریب کر دیے۔ عملی صورت حال یہ تھی کہ لوگ 200 روپے فی لٹر تک تیل خریدتے رہے۔ حکومت اس دوران تیل کی سپلائی بہتر کرسکی نہ قیمت کنٹرول کرسکی۔ حالیہ فیصلے سے عوام میں یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ حکومت انتظامی لحاظ سے ناکام ہے اور اس نے پٹرولیم مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ کورونا کے انسداد کے لئے مختلف ممالک نے جو لاک ڈائون کر رکھا ہے اب وہ اٹھایا جا رہا ہے۔ پروازوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ٹرانسپورٹ سڑکوں پر آ رہی ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ دنیا میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ زیادہ عرصہ لاک ڈائون بھوک اور بے روزگاری میں اضافہ کا باعث ہو سکتا ہے۔کاروباری اور پیداواری سرگرمیوں کے آغاز کے باعث تیل کی طلب بھی بڑھنے لگی ہے لیکن پٹرولیم مصنوعات کے نرخ ابھی اس سطح پر نہیں آئے کہ ساڑھے 71روپے میں فروخت ہونے والا پٹرول ساڑھے 25روپے فی لٹر مہنگا کر دیا جائے۔ اس فیصلے کے پس پردہ جلد بازی اور نااہلی جیسے معاملات واضح ہو رہے ہیں۔ یہ امر تعجب کا باعث ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی بیشی کا فیصلہ عام طور پر مہینے کی پہلی تاریخ کو کیا جاتا ہے۔ اس بار نجانے کیا جلدی تھی کہ حکومت نے اس قدر اہم فیصلے کو کابینہ میں بحث کے لئے پیش کیا نہ اس بات کا انتظار کیا کہ مہینے کے تین دن گزر جائیں۔ پھر یہ بات بھی فیصلے کی اصابت پر سوال اٹھاتی ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ کے فوری بعد تیل کے نرخ نہیں بڑھائے جا سکتے۔ حکومتی اراکین اور ترجمان تیل کے نرخوں میں اضافے کے عجیب و غریب جواز پیش کر رہے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ خطے کے تمام ممالک میں تیل کی قیمتیں پاکستان سے کم ہیں۔ قیمتوں کا تعین کبھی بھی اس اصول پر نہیں ہوتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس معاملے کو شفاف رکھا جاتا۔ ناگزیر ہوتا تو دس بارہ روپے فی لٹر اضافہ کیا جا سکتا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کے باعث عام آدمی کی زندگی کو متاثر کرنے والا یہ فیصلہ مشکوک انداز میں کیا گیا۔ اس فیصلے کا ایک پہلو یہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ ٹرانسپورٹرز اور دوسرے گروہ اس فیصلے سے فوری فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں حالانکہ پٹرول کے نرخوں میں کمی کے باوجود ایک ماہ تک کرائے کم نہ کئے گئے۔ کرایوں میں کمی کا معاملہ دو روز پہلے تک بھی حکومتی شرح کے مطابق نہیں تھا۔ یوں دکھائی دیتا ہے حکومت کی کسی شعبے پر گرفت مضبوط نہیں۔ وزیر اعظم کو کئی بار معاملات کا علم نہیں ہوتا اور ان سے منظوری لے لی جاتی ہے۔ وزارت پٹرولیم و گیس میں ایسے کئی فیصلے بعدازاں واپس لئے گئے جس سے حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔عوام کی طرف سے شدید احتجاج اور قیمتوں میں اضافے کے طریقہ کار کے غیر شفاف ہونے کے باعث یہ فیصلہ حکومتی نظرثانی کا متقاضی ہے۔