وزیر اعظم نے کچھ غلط نہیں فرمایا‘ اگریہ کہہ دیا کہ حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ لوگوں کو یہ بات اس لئے تعجب والی لگی کہ یہ ایک نئی دریافت تھی جو حکومتوں کی گیارہ ہزار سال کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی دریافت نہیں ہوئی تھی۔ روھنی یا روحونی سائنس کی بدولت یہ دریافت پاکستان کے حصے میں آئی ہے تو ہر پاکستانی کو اس پر خوش ہونا چاہیے۔ گیارہ ہزار سال کی تاریخ کے حکمران سلیقے سے محروم اور ناواقف رہے۔ خان صاحب نے جس سلیقے سے حکومتی ذمہ داریاں تقسیم کی ہیں اس کے بعد حکومت آسان ہی نہیں‘ پرلطف بھی ہو گئی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کی تصاویر دیکھیے‘ ایسی پرمسرت قلقاریاں مارتی کابینہ پہلے کبھی نظر آئی نہ آئندہ آئے گی۔ ملاحظہ فرمائیے۔ شہر یاری کا سلیقہ کس کمال کا ہے۔ سب سے بڑا سر درد معیشت ہوا کرتا ہے‘ وہ خاں صاحب نے آئی ایم ایف کے سپرد کر دی‘ تو دانی حساب کم و بیش را۔ کامل بے فکری اس سے بڑی فکر مندی کی طرف سے ہو گی۔ پھر داخلہ امور اہم مسئلہ ہواکرتا ہے۔ وہ خاں صاحب نے ایک ’’ذمہ دار‘‘ کے حوالے کر دی۔ ذمہ دار کے معنی جاننے ہوں تو بلاول بھٹو کے طبع شدہ بیانات کو پڑھ کر معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ امن و امان کی فرنچائز غیر علانیہ طور پر منظم گروہوں کے سپرد کر دی گئی ہے۔ کل ہی ایک ’’ہمدرد‘‘ اینکر تشویش ظاہر کر رہا تھا کہ جرائم میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔ میاں اینکر صاحب‘ غیر معمولی ابھی کہاں‘ ابھی تو جرائم کی ٹرین نے دوڑناشروع کیا ہے‘ سپیڈ کی لائٹ ابھی اس نے پکڑنا ہے۔ پھر کہیے گا۔ اور جرائم ہی نہیں‘ دہشت گردی کی بھولی بسری کہانی پھر سے لوٹ آئی ہے۔ کیا پنجاب ‘ کیا پختونخواہ‘ کیا بلوچستان۔ کوئی دن واردات سے خالی نہیں جاتا۔ ایک اور ’’وائٹل ایشو‘‘ خارجہ امور کا ہے۔ وہ امریکہ بہادر کے سپرد ہے‘ ہم اس سے بھی نچنت ہو گئے۔ مذہبی امور بھی ایک اہم اور حساس معاملہ ہوتے ہیں‘ وہ وزیر سائنس(وزیر رعونتی یا رہونیاتی سائنس ہے) کے سپرد کر دیے گئے۔ وزیر مذہبی امور کے نام سے ایک مولانا صاحب موجود ہیں۔ لیکن ان کی ذمہ داریاں کچھ اور ہیں۔ سنا ہے آج کل موزوں قسم کے قصائد حفظ کر رہے ہیں۔ ایک ضمنی مسئلہ کشمیر کا ہے‘ وہ ہم نے نریندر مودی کی متوقع جیت کے سپرد کر دیا ہے۔ جیت گئے تو خود ہی حل کر دیں گے۔ ہمارا ذمہ دوش پوش۔ نہ جیتے تو جیسے چل رہا ہے‘ چلتا رہے گا۔ باقی کیا بچا۔ ہرن کی مسلم رانیں‘ دیسی مرغیاں‘ فرائی فش‘ ڈی لکس ایلیٹ بریانی‘ کولڈ اینڈ وارم (ہاٹ) ڈرنکس اور دیگر ماکولات و مشروبات‘ تاریخ انسانی کے سب سے شاندار پروٹوکول(سنا ہے ایک ایسا ’’پورٹیبل‘‘ قسم کا ہیلی کاپٹر ایجاد ہونے والا ہے جس پر بیٹھ کر بیڈ روم سے باتھ روم تک کا سفر سہولت کیا جا سکے گا) روزانہ قوم سے خطاب۔ اتنی آسان اور پرکشش حکمرانی سے اگر ماضی کے شہریار ناواقف رہے تو ان کی قسمت کا قصور‘ ہم نے آسان جہانبانی کا قاعدہ لکھ ڈالا ہے۔ ٭٭٭٭٭ نوازشریف جیل پہنچ گئے‘ اس بار ایک بہت بڑی اور پرجوش ریلی کے ساتھ۔ رات ایک ہمدرد اینکر کی اطلاع برسرٹی وی چینل یہ تھی کہ اب ضمانت پر رہائی کا امکان قریب قریب معدوم ہو گیا۔ ریلی کتنی بڑی تھی‘ کیسی تھی ‘ سب کو پتہ ہے اور سب سے زیادہ پی ٹی آئی والوں کو پتہ ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان ریلی کے روز رات گئے تک مصروف رہے۔ خالی چوکوں‘ ویران بس اڈوں کی تصاویر ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپ لوڈ کرتے رہے۔ چینلز نے ریلی کا بلیک آئوٹ کیا۔ پی ٹی آئی کے ایک سرگرم کارکن سے پوچھا‘ یہ بلیک آئوٹ کیوں؟ فرمایا‘ لوگ آئے ہی نہیں‘ ٹی وی پر دکھا دیتے تو مسلم لیگ کو بڑی شرمندگی ہوتی۔ ہم نے تو اس کی شرم رکھ لی۔ شرم رکھنے کی روایت سال گزشتہ 13جولائی کو بھی رکھی گئی۔ تب بھی بلیک آئوٹ ہوا۔ لاہور کی سڑکیں کھچا کھچ ’’خالی‘‘ تھیں اور تمام چینلز پر یہ مبارک حسن اتفاق دیکھا کہ سبھی ایک زبان ہو کر کہہ رہے تھے کہ چار ہزار لوگ بھی نہیں نکلے۔ ایک چینل کا اختلافی نوٹ بھی تھا‘ یہ نشر ہوا کہ تین ہزار بھی نہیں تھے۔ اندازہ کیجیے۔ چینل اس روز بھی بلیک آئوٹ نہ کرتے اور کھچا کھچ خالی سڑکیں دکھا دیتے تو مسلم لیگ کو کیسی شرمندگی ہوتی۔ تب بھی شرم رکھ لی۔ اب بھی رکھ لی۔ لیگ پر شکریہ واجب ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک ماہر معیشت نے لکھا ہے کہ امیر طبقات سے ٹیکس وصول نہیں کئے جا رہے‘ صرف غریبوں سے لئے جا رہے ہیں لیکن غریبوں سے وصولی کی حد پہلے ہی پار ہو چکی۔ یہ خیال غلط ہے۔ بجلی مہنگی کرنے کا عمل جاری ہے اور اب جو نرخ بڑھیں گے۔ اس کی رو سے غریبوں اور مڈل کلاس والوں سے 202ارب روپے ہتھیائے جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ رمضان بازاروں اور یوٹیلیٹی سٹورز سے اشیاء غائب ہونے کی خبریں ہیں لیکن یہ خبریں مبالغہ آمیز ہیں۔ چیزیں مل جاتی ہیں اگر آپ کے پاس سفارش ہو۔ بہاولنگر میں بزدار اعلیٰ کے دورے کی ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک گاہک کو لیموں خریدنا تھے‘ نہیں مل رہے تھے۔ وزیر اعلیٰ نے سفارش کی‘ فوراً مل گئے۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ نواز شریف کو ڈیل کی آفر پہلے سے زیادہ شدومد کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ یہ کہ صاحبزادی سمیت باہر تشریف لے جائیں۔ نواز شریف نے انکار کر دیاہے۔ لیکن اصل خبر یہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ’’یک نکاتی ڈیل‘‘ میں ان تین ہزار کروڑ روپوں کا کوئی ذکر نہیں جو نواز شریف نے چوری کئے تھے۔