زندگی کا معنی کھانا پینا ،چلنا پھرنا ،سونا جاگنا نہیں،بلکہ صفات خاصہ کے ساتھ نام کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانا اور بقائے دوام دینا ہے ۔ آصف محمودکا تعلق قلم قبیلہ سے ہے ،لکھنے پڑھنے کا حد درجہ شوق،بسا اوقات تو موتی ہی پرو دیتے ہیں ۔انھوں نے ایک ایسے موضوع کوکتابی ڈھانچے میں ڈھالا،جن کو چھونے کا تصور بھی مصنفین نے کبھی کم ہی کیا ۔اہل علم سے دنیا کبھی خالی نہیں رہی ،کیونکہ بندوں کا رب غفور الرحیم ہے ،اس کی کائنات میں علم کی توقیر بالاتر ہے ،زندگی فہم سے سنورتی اور شعور سے سجتی ہے ۔ آصف محمود جدید تہذیب اور آداب کے سانچے میں ڈھلا وہ قلم کار ہے ،نئے تصورات کے دروازے ،جس کے در پہ وا ہوتے ہیں ۔اچھی کتاب ایسے ہی دوست ہے، جو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ساتھ رہتی ہے کبھی کسی کو کچھ نہیں کہتی۔ دل و دماغ عادات و اطوار پر اچھا اثر ڈالتی، ہمارے عقائد اعمال کردار سوچ کی اصلاح کرتی، اچھے اخلاق ،نیکی و بھلائی ہمدردی ایثار کا جذبہ پیدا کرتی، کامیابی کا راستہ دکھاتی اورمشکلات کا حل بتاتی ہے ۔برادرم آصف محمود کی کتاب ’’ پس قانون پاکستانی قانون پر برطانوی نو آبادیاتی اثرات ‘‘ایک ایسی کتاب ہے ،جو قانون کے ہر طالب علم کے پاس ہونی چاہیے ۔ویسے تو یہ ایک قدیم تاریخ ہے ۔لیکن مصنف کے اظہار کا طریقہ ،اسلوب کا رنگ ،الفاظ کا چنائو،سلاست کا نکھار اور متانت کی چاشنی ،ایسی ہے جوقاری کواپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے ۔دوران مطالعہ کسی مرحلے پر دماغ پر بوجھ نہیں آتا ۔بلکہ قاری اس میں ڈوب جاتا ہے ۔ایک درجن سے زائد میری کتابیں ملک بھر کی یونی ورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہیں ۔پہلے کتاب لکھنے سے قبل مادر علمی میں اساتذہ کے پاس حاضر ہو ا تو فرمایا: بیٹا الفاظ کا استعمال،اظہار کا ڈھنگ او ر زبان و بیان میںایسی رونق پیدا کی جائے کہ آپ کی کتاب ایک تحریک پیدا کرے ۔آصف محمود کی یہ کتاب جملہ اوصاف سے مزین ہے۔ مجھے ایک نجی یونی ورسٹی میں کئی صد قانون کے طالبعلموں سے ہم کلام ہونے کا موقع ملتا ہے ،میں نے آصف محمود کی کتاب انھیں پڑھنے کے لیے تجویز کی ،جس کے بعد سبق کم اور اس کتاب پر بحث زیادہ ہونا شروع ہو گی ۔یہی کسی کتاب کی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے ۔مصنف اس میدا ن میں ایسا سر خرو ہو کہ عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر برسے ،ورنہ ناکامی ہی ناکامی ۔ نسل نو کا اس دو رمیں کتاب سے رشتہ ٹوٹ چکا ۔انھیں بتایا جائے کہ کتابیں دنیا کی سیر کراتی، نئے تجربات و مشاہدات کی راہ د کھاتی، غموں کو دور کرتی اور برے کاموں سے بچاتی ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ لکھتے ہیں :’’ہمارا عدالتی نظام انگریزی کامن لاء کی بنیادوں پر کھڑا ہے۔ کامن لاء کے کچھ طریقے اور اصول ہیں، جن میں ایک واسطے (imtermediary) کا ہونا بہت ضروری ہے‘ اور وہ ہے وکیل‘ ہمارے نظام میں اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔اس نظام میں‘ جسے مخاصمت کا نظام (adversarial system)کہتے ہیں‘ جج کا کام ان امور تک محدود رہتا ہے، جو مقدمے کے فریقین اس کے سامنے رکھیں۔ جج فریقین کے دعویٰ اور جواب دعویٰ کو دیکھتا ہے‘ دونوں جانب کے پیش کردہ شواہد کا جائزہ لیتا ہے اور فریقین کے دلائل تک محدود رہتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے۔لہٰذا انصاف تک رسائی ریاست کی ذمہ داری نہیں رہتی بلکہ سائل اور مظلوم کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اسے پہلے وکیل ڈھونڈ کر اس کا محنتانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور ہمارے رائج نظام میں بھاگ دوڑ کرنا اور شواہد اکٹھے کرنا سائل ہی کی ذمہ داری ہے۔فوجداری مقدمات میں تفتیش کا کام پولیس کے ذمے سونپا گیا ہے مگر وہاں بھی سائل کو وکیل کی ضرورت پڑتی ہے۔اس سلسلے میں آصف محمود صاحب نے پولیس کے نظام کا بہت عمیق جائزہ لیا ہے۔ اسلامی نظام میں قاضی انگریزی کامن لاء کے جج سے بہت مختلف تھا۔اس میں عدل کو یقینی بنانا قاضی کی ذمہ داری تھی۔اس وجہ سے اگر قاضی محسوس کرے کہ فریقین کسی اہم امر کو سامنے نہیں لا رہے، جس کا تعین کیے بغیر عدل ممکن نہیں‘ تو اسے سامنے لانے کا اختیار قاضی کے پاس ہوتا تھا۔کوئی شخص بظاہر مظلوم ہے لیکن ظالم کے خلاف اس کے پاس بارِثبوت نہیں ہے‘ تو قاضی حکومتی مشینری کو استعمال کر کے پتا چلا سکتا تھا کہ کیا واقعی اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے یا نہیں۔ اس سے ملتا جلتا نظام سول لاء والے ممالک میں رائج ہے اور اسے تحقیق کا نظام (inquisitoroal systm) کہتے ہیں۔اس نظام میں قاضی اپنی طرف سے سوال بھی متعین کر سکتا ہے‘ کوئی تنقیح طلب امر بھی متعین کر سکتا ہے اور شواہد اکٹھے کرنے کے لئے کسی کو ذمے داری بھی سونپ سکتا ہے۔یہاں قاضی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے۔اسلامی اصولوں میں قضاء کا کام ریاست کی ذمہ داری ہے۔قاضی اگر خود صاحبِ علم نہ ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ فقہاء اور اہلِ علم سے مدد حاصل کرے۔سائل یا مظلوم نے صرف ریاست کے قائم کردہ نظامِ قضاء کو اپنی شکایت پہنچانی ہے ،اس کے بعد ریاستی نظم اور داد رسی کے ادارے انصاف کی فراہمی بہم پہنچانے اور اسے یقینی بنانے کے پابند ہیں‘ چاہے سائل کے پاس وسائل اور ہمت ہو یا نہ ہو۔‘‘ کتاب میں مصنف نے بھی تحقیق کا حق ادا کیا ۔لکھتے ہیں:’’آزاد ہوئے عشروں بیت گئے لیکن ہمارے ہاں آج وہ قوانین رائج ہیں ،جو برطانیہ نے ہمارے دور غلامی میں یہاں نافذ کئے تھے۔ہمارا پورا فوجداری نظام اور قانون آج بھی اسی ڈھانچے پر کھڑا ہے، جو برطانیہ نے 1857ء کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعد اس مقصد کے تحت یہاں متعارف کرایا تھا کہ آئندہ یہاں کسی کے سر اٹھانے کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے۔17اکتوبر 1857ء صبح چار بجے بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان بدر کیا گیا اور 1860ء میں یہاں رعایا کے لئے ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا۔دور غلامی میں متعارف کرائے گئے اس قانون کو آج ہم مجموعہ تعزیرات پاکستان کہتے ہیں اور یہ ہمارے فوجداری نظام کی سب سے بنیادی اور اہم ترین دستاویز ہے۔ اس کے ایک سال بعد یعنی 1861ء میں یہاں پولیس کا ایک نیا نظام متعارف کرایا گیا۔اسے پولیس ایکٹ1861ء کہا جاتا ہے اور عملاً آج بھی یہی قانون ہے جس کے تحت پولیس کام کر رہی ہے۔بہادر شاہ ظفر نے جب 1861ء میں رنگون میں قید کے دوران انتقال کیا تو ہندوستان میں محکوم رعایا کے لئے ایک نیا قانونی نظام مسلط کیا جا چکا تھا۔پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر آج بھی یہ ’اعلان مسرت‘ موجود ہے کہ ہم وہی پولیس ہیں، جس کی بنیاد 1861ء میں رکھی گئی۔ ضابطہ فوجداری ہمارے فوجداری نظام انصاف کی گویا شہ رگ ہے ۔یہ 1898ء میں نافذ کیا گیا اور آج تک اسی کے ذریعے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔مجموعہ ضابطہ فوجداری 161سال پرانا ہے۔فوجداری معاملات میں جو حیثیت ضابطہ فوجداری کی ہے ،دیوانی معاملات میں وہی حیثیت ضابطہ دیوانی کی ہے۔یہ قانون 1908ء میں بنایا گیا۔‘‘ پوری کتاب میں اسی طرح کے موتی جا بجا بکھرے پڑے ہیں ۔جو مصنف کی محنت ،شہرت اور مقبولیت کا سبب بنتے ہیں ۔پوری کتاب میں گفتگوکا اسلوب و لہجہ شائستہ وباوقار ہے۔جس سے کسی کی دلآزاری مقصود ہے نہ ہی تحقیر ۔قانون کے طالبعلموں کے لیے یہ کتاب کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔