حضرت ثابت بن قیس جلیل القدر صحابی تھے رسول اللہﷺ سے دیوانہ وار محبت کرتے تھے سرکار ﷺ کی محفل میں حاضری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے کہ جب تک چہرہ انور دیکھ نہ لیتے قرار نہ آتا لیکن عجیب ہوا کہ ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کی محفل میں آنا چھوڑ دیا آقا ﷺ نے بھی اپنے ساتھی ثابت بن قیسؓ کی کمی محسوس کی اورایک دن ان کے پڑوسی سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استفسار کرنے لگے کہ ثابت کہاں ہیں کیسے ہیں۔ سعد بن معاذ رضی اللہ نے عرض کیا رسول اللہﷺ! وہ میرے پڑوسی ضرور ہیں مگر مجھے علم نہیں ،میں ابھی جا کر معلوم کرتا ہوں۔حضرت معاذؓ سیدھا اپنے پڑوسی سے ملنے پہنچے دیکھا تو ثابت ؓگوشہ نشین ہیں چہرے پر افسردگی اور تاسف ہے ،آنکھیں متورم ہیں ،کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں ،لفظ ساتھ نہیں دیتے اور رو پڑتے ہیں سعدؓ پریشان ہو گئے پوچھا ماجرا کیا ہے یہ کیا حال بنا رکھا ہے ۔ثابت ؓ کوہمدردی کے دو بول ملے تو دل بھر آیا بچوں کی طرح بلک پڑے اور خوب روئے جب جی ہلکا ہوا تو گلو گیر آواز میں گویا ہوئے۔نبی ﷺ کی مجلس سے آنے والے سے کہا!سعدؓ میرے سب اعمال ضائع ہو گئے۔سعد نے کریدا تو کہنے لگے "تم جانتے ہو میری آواز بھاری اور بلند ہے سرکارﷺ کی محفل میں بعض اوقات ایسا ہوا کہ غیرارادی طور پر میری آواز رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کی آواز سے بلند ہو گئی...پھر تاسف بھرے لہجے میں روتے ہوئے کہنے لگے" میرے سارے اعمال ضائع ہو گئے" یہ ان دنوں کی بات ہے جب اللہ تبارک تعالیٰ کو اپنے محبوب کی مجلس میں بیٹھنے والے صحابہ کرامؓ میں سے بعض کی غیرارادی طور پر اونچی ہو جانے والی آوازیں پسند نہ آئیں اور رب العالمین نے سرزنش کرتے ہوئے سورہ الحجرات کی آیات نازل ہوئیں ’’اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو‘‘ ان آیات کا نزول تھا کہ ثابت بن قیسؓ ڈر کر گوشہ نشین ہو گئے انہوں نے مارے شرمندگی کے رسول اللہ کی مجلس میں جانا ہی چھوڑ دیاکہ اگر گیا کوئی بات کی تو فطری طور پر بلند آوازکی وجہ سے میں سورہ الحجرات کی وعید کاواجب نہ ہوجاؤں ،وہ سخت پشیمان رہے کہ ماضی میں وہ اسی بلند آواز کے ساتھ بات کرتے رہے یہ تو بے ادبی ہوگئی ،وہ گوشہ نشین ہو گئے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کی حالت کی خبر ہوئی اور انہوں نے انہیں جنت کی بشارت دے دی۔ یہ صلح حدیبیہ کا واقعہ دیکھئے رسول اللہﷺ اپنے جانثار ساتھیوں کے ساتھ کعبے کی طرف بڑھے کہ خانہ کعبہ کا طواف کیا جائے،رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چودہ اور بعض روایات میں پندرہ سو صحابہ کرام ؓ تھے ،حدیبیہ کے مقام پر کفار سامنے آگئے، راستہ روک لیا احمد مجتبیٰ ﷺ نے فرمایا ہم لڑنے نہیں بلکہ عمرہ کرنے آئے ہیں ،بات چیت کا آغاز ہوا کفار کی جانب سے عروہ بن مقصود ثقفی گفتگو کے لئے آئے وہ رسول اللہ ﷺ سے بات کرتے کرتے اپنی عادت کے مطابق سرکار دو عالم ﷺ کی داڑھی کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا اور قریب کھڑے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ فورا حرکت میں آتے اور اسکے ہاتھ پر تلوار کا دستہ مار کر خبردار کرتے کہ ہاتھ پیچھے رکھ تم کسی عام شخص سے نہیں سرور کونین ﷺ سے مخاطب ہو۔یہی عروہ جب واپس پہنچا تو اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا میری قوم کے لوگو!میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس گیا ہوں، بخدا میں نے کسی بادشاہ کی ایسی تعظیم نہیں دیکھی جتنی محمدﷺکے ساتھی انکی کرتے ہیں۔ خدا کی قسم وہ تو محمدﷺکا لعاب دہن بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے۔ آپ کا لعاب دہن بھی ان میں سے کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا ہے‘‘۔ یہ تو صحابہ کی بات ہے بعد میں بھی سرکاردوعالم ﷺ کے احترام کے حوالے سے مسلمان اسی طرح محتاط رہے۔ ایک بار امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے دروازے پر بہترین نسل کے خراسانی او ر مصری خچر بندھے دیکھے، انہوں نے خچروں کی تعریف کی اور کہا کہ کیسے اچھے خچر ہیں ۔امام مالک نے اسی وقت سب خچر انہیں ہدیہ کردیئے، امام شافعی نے کہا کہ ان میںسے کچھ تو اپنی سواری کے لئے رکھ لیں۔ جواب میں امام مالک نے دھیمے لہجے میں کہا مجھے خداسے شرم آتی ہے کہ اس زمین کو جس میں رسول اللہﷺ ہیں اپنے گھوڑے کے سموں سے پامال کروں۔ آج میرے سرکار ﷺ کے حرم میں ہم پاکستانیوں نے ادب کا سارا قرینہ بھلا دیا ۔سیاسی مخالفت میں ایسے اندھے ہوگئے کہ گنبد خضراء چند گز کے فاصلے پر ہوتے ہوئے بھی نظروں سے اوجھل ہوگیا ،بھول گئے کہ رسول اللہ ﷺ قریب ہی آرام فرما ہیں۔ستائیسویں شب کو حرم نبوی ﷺمیں حکومتی وفد کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر دکھ احتجاج کا نہیں،افسوس اس بات کا ہے کہ احتجاج کہاں کیا گیا، سیاست کے لئے دنیا پڑی ہے ،احتجاج سیاسی جماعتوں کا حق ہے اور میں ان کے اس حق کے ساتھ کھڑا ہوں لیکن ظالمو! حرم نبوی کو تو چھوڑ دیتے یہاں آپ رسول اللہ ﷺ کے مہمان ہو کسی کے گھر میں بھی جا کر یوں ادھم نہیں مچایا جاتایہ تو پھر محبوب خدا کا گھر ہے ان کی آخری آرام گاہ ہے یہا ں تو نظربھی نہیں اٹھتی آوازیں کیسے اٹھیں ’’جھکاؤ نظریں بچھاؤ پلکیں ادب کا اعلیٰ مقام آیا‘‘ عقل کام نہیں کررہی کہ اس سیاسی تربیت کا اظہارکیوں ضروری ہوا،دنیا کولازمی دکھانا تھا کہ ہم بلند آواز والے کتنے پست لوگ ہیں۔ افسوس اے عاقبت نااندیشو! کاش مقام مصطفیٰﷺ کا احسا س کیا ہوتاتم نے چیختے چلاتے پھبتیاں کستے ہوئے یہ مناظراپنے سیل فون کے کیمروںسے محفوظ تو کرلئے اب سورہ حجرات کی آیات کے تناظر میں اپنا مقام بھی دیکھ لو!