پشاور کے پوش علاقہ حیات آباد میں نا معلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے ہائیکورٹ کے جج جسٹس ایوب خان مروت ڈرائیور سمیت زخمی ہو گئے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ جسٹس مروت پر ہائی کورٹ جاتے ہوئے فائرنگ کی گئی۔ اب جبکہ پولیس نے جسٹس ایوب خان مروت پر حملہ کرنے والے ملزموں کی فوٹیج حاصل کر لی ہے تو ان کی جلد از جلد گرفتاری کو بھی یقینی بنایا جائے۔ بہر حال یہ واقعہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال اور پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کہ شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والے کس حد تک اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔ واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جسٹس مروت کیساتھ حملہ کے وقت سکیورٹی اہلکار موجود نہیں تھا جو عموماً ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ تفتیش کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ جسٹس صاحب کو سکیورٹی کی فراہمی میں کیوں غفلت برتی گئی۔ یہاں یہ استفسار بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب ایسے حملوں سے ہائی کورٹ کا جج محفوظ نہیں ہے تو عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی کیا ضمانت دی جا سکتی ہے۔ لہٰذا واردات کی فوٹیج کو بنیاد بنا کر تمام امکانات کا جائزہ لیا جائے اور ملزموں کیخلاف مقدمہ درج کر کے انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ علاوہ ازیں سکیورٹی کے حوالے سے جو سقم موجود ہیں انہیں دور کیا جائے تا کہ آئندہ اس قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو سکے۔