پشاور میں ایک بار پھر طالب علم بچے سفاک دشمن کی دہشت گردانہ کارروائی کا نشانہ بنے ہیں۔ پولیس کے مطابق پانچ سے چھ کلو وزنی بارودی مواد ایک بیگ میں چھپا کر دیر کالونی کی مسجد و مدرسے میں رکھا گیا۔ دھماکے میں8 افراد جاں بحق جبکہ 100 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 94 زخمیوں کو وہاں لایا گیا جن میں سے نصف کو ابتدائی طبی امداد فراہم کر کے فارغ کردیا گیا ہے۔ کئی افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’قوم کو یہ یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس بزدلانہ‘ وحشیانہ حملے کے ذمہ داروں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘‘ پاکستان نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی طرف سے فرنٹ لائن سٹیٹ قرار دیا گیا۔ اس فرنٹ لائن سٹیٹ کا مطلب تھا کہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی افغانستان میں جو کچھ ظلم کریں گے ان کا بھگتان پاکستان کو بھرنا پڑے گا۔ بعد میں یہی ہوا۔ افغانستان میں اتحادی افواج اپنی بیرکوں سے نہیں نکلتی تھیں۔ لڑاکا طیاروں سے افغان عسکریت پسندوں پر حملے کئے جاتے‘ آئے دن ڈرون حملوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ درجنوں بے گناہ مارے جاتے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے بھی امریکی کارروائی سے محفوظ نہ تھے۔ پاکستان کے لیے یہ دوہرا امتحان تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو اس جنگ سے بچانا چاہتا تھا لیکن امریکہ کا ساتھ دینے پر مجبور تھا۔ دسمبر 2014ء میں دہشت گردوں نے سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کی حکمت عملی تبدیل کی اور پشاور میں آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنایا۔ ڈیڑھ سو بچے اور اساتذہ شہید ہو گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ آپ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے مل کر نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا۔ وزیرستان اور دیگر ایجنسیوں میں آپریشن کئے گئے۔ بڑے چھوٹے شہروں میں ضرب عضب آپریشن ہوا۔ ان عناصر کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا جو تحریری یا تقریری لحاظ سے دہشت گردانہ نظریات کی تبلیغ کرتے تھے۔ انتہا پسندی اور تشدد کا ریکارڈ رکھنے والوں کی نگرانی شروع ہوئی‘ غیر قانونی اسلحہ کے خلاف آپریشن ہوا۔ سکولوں اور سرکاری دفاتر کی سکیورٹی کے لیے نئے ایس او پیز جاری ہوئے۔ پولیس اور دیگر اداروں کو جدید اسلحہ اور تیز رفتار گاڑیاں فراہم کی گئیں۔ انٹیلی جنس نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ شہریوں کو ہیلپ لائن دی گئی کہ کسی مشکوک شخص یا سرگرمی کی صورت میں اس پر اطلاع کریں۔ ان اقدامات کا فائدہ یہ ہوا کہ دو تین سال کی مسلسل محنت سے دہشت گردوں کا زور ٹوٹ گیا۔ اس حکمت عملی کی کامیابی کے بعد فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ گزشتہ تین ماہ سے بلوچستان اور فاٹا کے قبائلی اضلاع سے ایک بار پھر دہشت گردانہ کارروائیوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب سکیورٹی فورسز کی جانب سے کوئی جوان شہید نہ ہو رہا ہو۔ دہشت گردی کی اس تازہ لہر نے ایک بار پھر پرامن ماحول میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس لہر کے پیچھے کون ہے۔ چند ہفتے قبل قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بھارتی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران اپنے شواہد کا ذکر کیا تھا جو ثابت کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں اے پی ایس حملے کی خاص طور پر بات کی گئی جس میں بھارتی ہاتھ ثابت ہورہا ہے۔ دو روز قبل بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ جہاں خطرہ ہوگا بھارت وہاں میدان جنگ بنائے گا۔ بھارت کو کشمیر کے معاملے پر پاکستانی موقف اپنے لیے خطرہ محسوس ہوتا ہے حالانکہ یہ موقف اقوام متحدہ کے طے شدہ اصولوں کے عین مطابق ہے۔ بھارت افغانستان کے راستے بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہ ہوگی اگر پشاور کے مدرسے پر حملے کے تانے بانے بھارت سے جا ملیں۔ انٹیلی جنس ادارے پچھلے کئی روز سے دہشت گردی کے تھریٹس جاری کر رہے تھے۔ افسوسناک امر یہ کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اسے اپنی حکومت مخالف مہم روکنے کی کوشش قرار دے کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اپوزیشن کے جلسوں کی وجہ سے انٹیلی جنس اداروں کی توجہ تقسیم ہوئی جس کا فائدہ ملک کے ازلی دشمنوں نے اٹھایا۔ اپوزیشن اور حکومت کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ معاشی مشکلات سے دوچار پاکستان کے لیے اس جنگ کو ازسرنو شروع کرنا دشوار ہوگا۔ اس لیے سیاستدان دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کسی سازش کا حصہ نہ بنیں۔جلسے، اقتدار‘ طاقت‘ پیسہ اور حیثیت اس وقت تک ہمارے لیے اہم ہیں جب تک پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری ،امن اور وقار بحال ہے۔ دہشت گردوں نے معصوم طالب علموں اور مدرسے کو نشانہ بنا کر بتا دیا ہے کہ انٹیلی جنس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک بار پھر ہوشیار ہونا ہو گا۔ دہشت گرد ہماری آنے والی نسلوں کو نشانہ بنا کر بتا رہے ہیں کہ وہ ہمارے مستقبل کی گردن دبوچنا چاہتے ہیں۔ہمیں یہ وقت ایک دوسرے سے جھگڑتے ہوئے ہرگز ضائع نہیں کرنا چاہئے۔