عمران خان کی حکومت جیسے تیسے آگے کی طرف کھسکتی چلی جا رہی ہے۔ ان کا کوئی حامی چاہے تو اسے دوڑتی بھاگتی بلکہ کلانچیں بھرتی حکومت بھی قرار دے سکتا ہے۔ دل کی کیا ہے، وہ تو کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ خان صاحب کی گرفت حکومت پر مضبوط ہے اور نہ ہی ان کی ٹیم ابھی تک ردھم میں آ سکی ۔کرکٹ میں ہم نے دیکھا کہ بعض ٹیمیں ردھم میں آتے اتنی دیر لگا دیتی ہیں کہ ٹورنامنٹ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ 2007 ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان آئر لینڈ اور بھارت بنگلہ دیش سے میچ ہار کر فوراً باہر ہوگئے، انہیں ردھم میں آنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔ خود عمران خان کے دور میں ہم اکثر یہ دیکھتے کہ ٹیم آسٹریلیا سیریز کھیلنے گئی، دو ٹیسٹ ہار کر آخر میں ردھم میں آئی، تیسرا جیت گئی، مگر تب تک سیریز ہی ختم ہوجاتی۔ سیاست میں کرکٹ کی نسبت کچھ وقت زیادہ مل جاتا ہے، مگر بہرحال یہاں بھی جلد پرفارم کرنے کے لئے دبائو تو رہتا ہے۔ویسے کم وقت ملنے کی رعایت خان صاحب کو ملنی چاہیے، ایسا نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔انہیںوزیراعظم بنے مشکل سے بائیس دن ہوئے ہیں۔ گورنروں کے حلف وغیرہ تو چند دن پہلے ہوئے۔ اخبارنویس تو چلیں حتمی رائے دینے کے لئے کچھ انتظار کر لیں گے، عوام اتنی دیر نہیں لگاتے۔ سماج کا عام رواج ہے کہ لوگ کسی بھی نئی چیز ، پراڈکٹ، سٹائل، ٹرینڈ وغیرہ کے چند دنوں کے مشاہدے کے بعد اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ نئی دکان کے شروع کے چند دنوں ہی میں اس کے مستقبل کے حوالے سے خبر سنا دی جاتی ہے۔ شروع ہی میں اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ پراڈکٹ کیسی رہے گی،اس کے مالکان، مینجمنٹ کس انداز میں سوچتے ، کام کرتے ہیں اور کیا گل کھلائیں گے؟یہ اندازہ غلط بھی نکلتا ہے،کئی بار ایسا بھی ہوا کہ مالکان نے شروع کی غلطیوں کی اصلاح کر کے اپنی پراڈکٹ بہتر بنا لی، انتظامی غلطیوں کو دور کر دیا گیا۔بہت بار مگر ابتدائی تاثر درست نکلتا ہے۔ عمران خان کی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا ابتدائی تاثر معلوم کیا جائے تو ایک ہی لفظ ذہن میں آتا ہے،ناتجربہ کاری۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں … ان سب میں ناتجربہ کاری نمایاں نظر آتی ہے۔یوں لگتا ہے جیسے اقتدار تو مل گیا، مگر ابھی یہ سمجھ نہیں آ رہاکہ کام کس طرح کرنا ہے؟کس سمت میں چلنا اور کن کن چیزوں سے بچنا، کون سی لازمی کرنی ہیں۔ ناتجربہ کاری والی بات قابل فہم ہے۔ عمران خان کو گورننس کا کچھ تجربہ نہیں۔ انہیں پچھلی بار کے پی میں صوبائی حکومت ملی، بعض لوگوں نے خان صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ صوبائی حکومت کے کاموں میں دلچسپی لیں، حکومتی معاملات، مسائل کا کچھ اندازہ ہوجائے گا۔ادھر قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین سٹینڈنگ کمیٹیوں کا حصہ بن کر بھی خاصا کچھ سیکھ سکتے تھے۔ یہ موقعہ احتجاجی سیاست کی وجہ سے ضائع ہوگیا۔ پارلیمانی سیاست میں اپوزیشن جماعتیں شیڈو کابینہ بنا کر اپنے اراکین کو کچھ ٹرینڈ کر لیتی ہیں ، بعد میں اقتدار ملنے پر ان لوگوں کو وہی وزارتیں دی جاتی ہیں ، جنہیں وہ اپوزیشن کے دنوں میں مانیٹر کر رہے تھے۔ ہمارے ہاں اس کا رواج بھی نہیں اور ویسے تحریک انصاف مسلسل تبدیلیوں کا شکار جماعت رہی، جس میں لوگ آتے جاتے رہے ، اندازہ ہی نہیں تھا کہ آخر تک کون پارلیمنٹ میں پہنچے گا اور کون نہیں۔اسد عمر کے حوالے سے البتہ ہر ایک کو علم تھا کہ وزارت خزانہ ان کے پاس ہوگی، باقی کسی کا طے نہیں تھا۔اب یہی دیکھ لیں کہ اگر شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی کا انتخاب نہ ہارتے تووزیراعلیٰ پنجاب کا منصب ان سے دور رکھنا ممکن نہیں تھا،ایسے میںکسی اور کو وزیرخارجہ بنانا پڑتا۔ ناتجربہ کارہونے میں عمران خان صاحب کا قصور نہیں۔ یہ تو حالات کا جبر ہے، مگر ایسی صورتحال میں سنجیدہ، تجربہ کار لوگوں سے مشاورت کا نظام قائم کرنا چاہیے تھا۔ اب تک وہ نظر نہیں آ سکا۔ مشاہدہ تو یہ بتا رہا ہے کہ جس طرح لشٹم پشٹم کام ابھی چلایا جا رہا ہے، شائد پوری مدت (دو ڈھائی یا پانچ سال جتنا وقت وہ گزار پائے)اسی طرح گزر جائے گی۔صرف اپنے شعبہ میڈیا کی بات کر تا ہوں۔ فواد چودھری کو وفاقی وزیر اطلاعات بنایا گیا۔یہ درست ہے کہ وہ پچھلے دو برسوں سے تحریک انصاف کا ہر پلیٹ فارم پر دفاع کرر ہے تھے اور اب انہیں ہی یہ ذمہ داری ملنا تھی۔ ناتجربہ کاری کے پیش نظر وزیراعظم اگران کے لئے کسی تجربہ کار مشیر، کسی’’ سپن ڈاکٹر‘‘ کا انتخاب کر دیتے تو شائد وہ غلطیاں نہ ہوتیں جو مسلسل ہو رہی ہیں۔وفاقی دارالحکومت ایک سے بڑھ کر ایک کاریگر، ہوشیار لوگوں سے بھرا ہے۔ میڈیا میں عمران خان کے حامیوں کا خاصا بڑا حلقہ ہے،حکومت کے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند کسی ہوشیار صحافی کی خدمات لے لی جاتیں۔وزیراطلاعات کی سیٹ بڑی اہم سمجھی جاتی ہے۔یہ حکومت کا چہرہ ہے، لوگوں نے انہی کی زبانی حکومتی موقف سننا ، سمجھنا اور اپنی رائے قائم کرنا ہے۔فواد چودھری شروع ہی سے مذاق بنے ہوئے ہیں۔ پہلے ہیلی کاپٹر کے سفر کے حوالے سے بچکانہ بات کہی اور خوب بھد اڑوائی۔ پھر قادیانیوں کے ایشو میں بدترین مس ہینڈلنگ کی۔ ان کے درشت لہجے نے ہر ایک کو ناراض کیا۔ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے بروقت اپنا فیصلہ واپس لے لیا، ورنہ یہ پہلی حکومت ہوتی جس کے خلاف پہلے مہینے میں عوامی تحریک شروع ہوجائے ۔ فواد چودھری اپنی وزارت اطلاعات کے کسی تجربہ کار افسر سے بریفنگ لے لیتے تو ایسی حماقت نہ کرتے۔ سمجھ بوجھ کا یہ عالم ہے کہ ہر وزیراطلاعات عہدہ سنبھالنے کے بعد خیر سگالی کے طور پر مختلف میڈیا ہائوسز کا دورہ کرتا ہے۔ وزیراطلاعات کو اس سے اچھی ذاتی کوریج بھی ملتی ہے اور میڈیاکے ساتھ خوشگوار تعلقات بھی قائم ہوجاتے ہیں۔حد یہ ہے کہ نگران حکومت کے وزیراطلاعات بھی خوشدلی سے یہ وزٹ کرتے اور مفت کی تشہیرپاتے ہیں۔چودھری صاحب کو کسی نے یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کی کہ بھیا جی یہ کام آپ ہی نے کرنا ہے۔ پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض چوہان ایک متحرک ، تیز طرار شخص ہیں۔ اخبارات میں وہ لکھتے لکھاتے بھی رہے۔ لاہور میں میڈیا دفاتر کا دورہ کرنے کا انہیں بھی خیال نہیں آیا۔ رہے وزیراعلیٰ پنجاب توہمارے خان صاحب نے جنوبی پنجاب سے ایسا ہیرا چھانٹ کر نکالا ہے کہ سرائیکی ابھی تک شاک میں ہیں۔ انہیں یقین ہی نہیں آ رہا کہ’’ ایسی چنگاری بھی یارب ہماری خاکستر میں تھی۔‘‘خاکسار نے کئی بار’’عہد ‘‘کیا کہ سرائیکی وزیراعلیٰ کے حوالے سے کچھ مثبت لکھا جائے ، مگر اس کا موقعہ بھی تو دیا جائے ۔وزیراعلیٰ کے حوالے سے شروع میں خبر میڈیا پر چلی یا چلوائی گئی تھی کہ ان پر قتل کے مقدمات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خبر کی تردید ہوگئی، میڈیا اسے بھول بھال بھی گیا۔ اگلے روز پی ٹی آئی کے ایک حامی ٹی وی پروڈیوسر نے بتایا کہ پیمرانے چینلز کو نوٹس جاری کئے ہیں، عین ممکن ہے کہ پانچ پانچ لاکھ کے جرمانے ہوجائیں۔ وہ صاحب تاسف سے کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی والوں کو کیا ہوگیا ہے؟ آتے ہی میڈیا کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے بجائے ، اچھے بھلے حامیوں کو دور کر رہے ہیں۔ عمران خان کو اصل مسئلہ پنجاب کی وجہ سے ہی درپیش ہے۔ وہ بڑے بڑے فیصلوں میں مصروف ہیں، بچت کے نئے طریقے، اکانومی کو ٹھیک کرنا، آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بچنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اہم کام ہیں، وفاقی حکومت ہی کو کرنے پڑیں گے۔ ٹیکس اصلاحات، ایسی پالیسیاں جن سے ملازمتیں پیدا ہوں یا لاکھوں سرکاری گھر بنائے جا سکیں … ان سب کی منصوبہ بندی وفاق ہی نے کرنی ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت مگر بہت اہم ہے،عام آدمی کو اسی سے ریلیف ملے گا۔ صحت، تعلیم، امن وآمان، تھانہ کچہری کا ظلم، پٹواریوں کا استحصال، پینے کا گندا زہریلا پانی ، یہ سب صوبائی معاملات ہیںاور صوبائی حکومت ہی نے ٹھیک کرنے ہیں۔ناقص خوراک، ملاوٹ ، تجاوزات، قبضہ گروپ وغیرہ کے مسائل سے بھی صوبائی حکومت نے نمٹنا ہے۔ عمران خان چاہیں بھی تو اس میں ہاتھ نہیں بٹا سکتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت ایک ایسی گاڑی کے مانند لگ رہی ہے جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی نہیں بیٹھا اور وہ اپنے آپ ہی ڈگمگاتی ، ڈولتی ہوئی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے، کچھ پتہ نہیں کہ کب سڑک سے نیچے اتر جائے ۔یہ وزیراعلیٰ کا قصور ہے، جنہیں ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وزارت اعلیٰ مل جانے کے بعد ان پربھاری ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔ خود سمجھ نہیں ا ٓرہی تو صوبہ ہر شعبہ کے ماہرین سے بھرا ہے، ان سے تجاویز ہی مانگ لیں، ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک رسمی یا غیر رسمی مشاورتی کونسل بنائیں اور اہم مسائل کو ترجیحاً حل کرنے کی کوشش کریں۔پنجاب کی اہم وزارتیں عمران خان نے تجربہ کار لوگوں کو دی ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کو صحت کا قلم دان دیا گیا۔ ان سے بہتر کون حق دار ہوسکتا تھا؟ اسی طرح عبدالعلیم خان، محمود الرشید،اسلم اقبال وغیرہ کو بھی اہم وزارتیں ملی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ٹیم کیا کر دکھاتی ہے؟ ہم نے کبھی لیڈر لیس ٹیم(Leader Less Team)کو کامیاب ہوتے دیکھا تو نہیں، کاش اس بار یہ معجزہ ہوجائے۔ میری خواہش ہے کہ یہ ابتدائی تاثر غلط نکلے۔ دیکھیںہماری نیک تمنائیں کس حد تک ثمربار ہوتی ہیں؟