اسلام آباد( خبر نگار خصوصی،92 نیوز رپورٹ ،این این آئی، آن لائن )قومی اسمبلی اجلاس میں وفاقی وزیر عمر ایوب کی جانب سے مسٹر 10 پرسنٹ کا ذکر کئے جانے پر ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی ہو ئی،پیپلز پارٹی کے ارکان حکومتی ارکان سے گتھم گتھا ہوگئے ،عمر ایوب کا گھیرائو کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں ۔قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر برس پڑے اور کہاکہ 60 سے 70 کی دہائی میں مہنگائی ہوئی، مسلم لیگ (ن )30 ہزار ارب روپے تک قرضہ لے گئی ، پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت نے 15 ہزار ارب روپے تک قرضہ چھوڑا۔اسی دوران عمر ایوب نے سابق صدرکو مسٹر 10 پرسنٹ کہا جس پر پیپلزپارٹی کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور پارٹی ارکان نے عمر ایوب کی چیئر کا گھیراؤ کرکے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔پیپلز پارٹی ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑدیں جبکہ رہنما پیپلزپارٹی آغا رفیع اﷲ حکومتی ارکان سے گتھم گتھا ہوگئے اور سابق صدر ایوب خان کے خلاف نعرے لگائے ۔ ا س موقع پر وزیر مملکت علی محمد خان معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تاہم وہ بھی کامیاب نہ ہوسکے ،ہنگامہ آرائی کے بعد ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کی کارروائی 10 منٹ کے لیے معطل کی بعد ازاں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو علی محمد خان نے کہاکہ مہنگائی پر بحث جمعرات کے روز بھی جاری رہے گی جس کی تحریک اکثریت رائے کی بنیاد پر منظور کر لی گئی ۔ بعد میں اجلاس آج صبح 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ اس سے قبل اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ اگر ہم نے صحیح اقدامات نہیں اٹھائے تو ہم بھی ناکام ہوجائیں گے ،گزشتہ حکومت میں بجلی کی قیمت نہ بڑھانا اور قرض لینا مہنگائی کی وجوہات ہیں، ڈالرز کو جان بوجھ کر سستا رکھا گیا،جب حکومت آئی تو پہلی چیز جو مسائل کی جڑ ہے وہ 30 ہزار ارب کا قرض تھا،جو لوگ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی راہداریوں میں نہیں گھس سکتے وہ آئی ایم ایف پر تنقید کررہے ہیں ۔سویلین حکومت کے بجٹ میں 40 ارب روپے کمی کی گئی، فوج کا بجٹ منجمد کرنے میں آرمی چیف جنرل باجوہ نے حکومت کی حمایت کی، ایوان صدر وزیر اعظم آفس کے اخراجات کم کئے گئے ۔ہم دیکھتے ہیں لوگوں کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں، اگر ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تو ہمیں لوگوں پر خرچ کرنا ہوگا۔ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے اب 2 ارب ڈالر پر ہے ،آئندہ ایک دو ماہ میں اشیاکی قیمتوں میں کمی آئے گی اورمستحکم ہوں گی۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑی حقیقت یہ ہے 72 سال میں اس ملک کا ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت مکمل نہیں کرسکا ۔معیشت کے استحکام کے لئے داخلی سلامتی ضروری ہے ،آٹا، کوکنگ آئل، چینی، دالیں، چاول مارکیٹ سے سستا یوٹیلیٹی سٹورز پر مل رہی ہیں جو مستقل ہونگی۔ مشیر خزانہ کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مشیر خزانہ نے بہت خوش کن اعداد و شمار سامنے رکھے ، اب میں اپنے حلقے کے عوام سے کہوں گا کہ موڈیز کی رپورٹ پڑھ لیا کریں اور پرائمری سرپلس کھا لیا کریں۔وزیر خزانہ نے سب باتیں کیں لیکن آٹے اور چینی کی قیمتوں کا ذکر کرنا بھول گئے ، 2018 میں آٹا 40 روپے تھا اور آج 70 روپے فی کلو مل رہا ہے ، چینی 53 روپے تھی جو آج 70 روپے مل رہی ہے ، کون اس کا جواب دے گا۔انہوں نے کہا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، جب لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ مشیر خزانہ کی حب الوطنی پر شک نہیں لیکن جو 342 لوگ اس ہاؤس میں بیٹھتے ہیں وہ بھی اتنے ہی محب وطن ہیں۔پوری کابینہ میں صرف ایک خاتون وزیر نے کام کیا ہے ، وزیر نے اسلام آباد سے پلاسٹک شاپنگ بیگ ختم کیے ، باقی وزراء کی کارکردگی دکھا دیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ وزیراعظم نے کہا کہ آٹے کا بحران مافیاز نے پیدا کیا، یہ فرما کر وہ اپنی معمولی سی غلطی کو ٹھیک کرنے کے لیے کوالا لمپور چلے گئے ۔ واپس آکر انہوں نے کہا کہ بحران کی وجہ سرمایہ دار طبقہ ہے لہذا ملک بھر میں چھوٹے دکانداروں کے لیے 50 ہزار دکانیں بنائی جائیں گی جنھیں 5، 5 لاکھ روپے دیئے جائیں گے جو تقریباً 35 ارب روپے بنتے ہیں۔ پاکستان کے عوام آٹے اور چینی کی مد سے 2 ارب روپے یومیہ زیادہ ادا کر رہے ہیں، اس کا کیا جواب ہے مشیر خزانہ کے پاس؟ کیا یہ مافیا وہی لوگ نہیں جو وزیراعظم کے اخراجات اٹھاتے ہیں، اﷲ کرے کہ ایسا نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ مزے کی بات ہے کہ اس پوری صورت حال میں کسی نے پنجاب حکومت کا تذکرہ نہیں کیا، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان گوہر نایاب ہیں، کیا ان کے بارے میں کوئی بات کر سکتا ہے ،سپیکر صاحب میری گزارش ہے کہ تھوڑی ہمت کریں اور پہلی جنوری سے اب تک 60 ارب روپے کا جو ڈا کہ پڑ چکا ہے ، اس کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دیدیں۔ وزیر خزانہ کی ایک بات بھی حقیقت پر مبنی نہیں ۔ اگر یہ حکومت 5 سال پورے کر گئی تو پاکستان کا قرضہ دوگنا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی اداروں نے تعریف کی پوچھنا یہ چاہتا ہوں عوام نے آپ کی کون سی تعریف کی۔ ایک سال میں 3 فیصد مہنگائی کی شرح سے 14 فیصد تک کیسے پہنچی اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافہ کیسے ہوا۔قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات میں بتایاگیاکہ یوٹیلٹی سٹورز کیلئے 10ارب روپے کا پیکج دیا ،بلوچستان میں چھوٹے ڈیموں کیلئے 52ارب روپے مختص کئے ، پمز میں ڈاکٹروں کی کمی کے باعث مزید ڈاکٹر بھرتی کئے ،سٹیل ملز کی زمین پر کی گئی چائنہ کٹنگ میں سے ایک سو ایکڑ واگزار کرالی ،مہندڈیم پاور پر 1.5فیصد تعمیراتی کام مکمل ہو گیا۔