دشمنان پاکستان کی بوکھلاہٹیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں کسی پل چین نہیں آرہا۔ یہ سوتے سوتے کسی خوش کن خواب سے ، جس میں خاکم بدہن وہ اپنے تئیں ملک خداداد کو صفحہ ہستی سے مٹا چکتے ہیں، ہڑبڑا کر بیدار ہوتے اور کسی غیر ملکی میڈیا کو بیان داغ دیتے ہیں کہ دنیا والو کچھ پتا بھی ہے دہشت گردوں کی نرسری پاکستان میں بہاولپور میں جہادیوں کے اڈے ہیں۔ کارروائی کیوں نہیں کرتے کس بات کا انتظار ہے۔بدقسمتی سے یہ لوگ پاکستان میں حساس عہدوں پہ فائز رہے اور خوش قسمتی یہ ہے کہ ایسا ہر شخص بالآخر درست مقام پہ پہنچ گیا ہے۔ حسین حقانی جیسے لوگ ایک عرصے سے کھل کر پاکستان کے خلاف تنظیمیں بناتے، سیمینار کرتے اور لابنگ کرتے نظر آرہے ہیں اور یو ں وہی کررہے ہیں جو دراصل ان کا کام تھا۔کچھ اور لوگ کسی اسپتال کے گائنی وارڈ میں دہائیاں دیتے پھر رہے ہیں کہ جس ملک پہ انہوں نے بلا شرکت غیرے حکومت کی، اداروں کو نکیل ڈالے رکھی ، ہر ادارے میں من پسند افراد بھرتی کئے،اس ملک میں ان کے حسب منشا علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دور میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستہ ہونے کے باوجود عالمی تنہائی کا شکار رہا اور ہم دنیا بھر سے سو پیاز اور سو جوتے کھاتے رہے۔ اب انہیں پاکستان اور عمران خان کی پذیرائی اور عزت افزائی برداشت نہیں ہورہی۔غالبا ان کی دلی خواہش تھی کہ پاکستان ایسی عالمی تنہائی کا شکار ہوجائے جو اس کی معیشت پہ اثر انداز ہو اور معاشی بحران سے نمٹتا یہ ملک دیوالیہ ہوکر رہ جائے۔یہ کہنا غلط ہوگا کہ ایسے لوگ زمینی حقائق سے واقف نہیں اور احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں ۔ وہ ان سے خوب واقف ہیں اور یہی ان کی بوکھلاہٹ کی وجہ بھی ہے۔ حب نواز شریف سے زیادہ بغض عمران خان کے شکار کچھ صحافی یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کررہے ہیں کہ جو بات عمران خان نے پلوامہ حملے سے متعلق اپنے خطاب میں کی بعینہ وہی بات نوازشریف نے ممبئی حملوں سے متعلق کی تو بھونچال آگیا جبکہ نواز شریف پہ غداری کے الزامات دھر دیئے گئے۔ یہ ایک مکمل طور پہ غلط اور گمراہ کن بیانیہ ہے۔ عمران خان نے اپنے مختصر ترین خطاب میں، جس کی انہیں کوئی جلدی نہیں تھی اور انہوں نے محترم مہمان کے جانے کا شریفانہ انتظار کیا، آگ اگلتے بھارت کو پیشکش کی کہ اگر کوئی ثبوت ہے تو لے کر آئیں۔اس خطاب سے قبل سورہ حجرات کی آیت چھ تلاوت کی گئی جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’’جب تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تصدیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو تم اپنی جہالت میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو۔‘‘یہ ایک بلیغ اشارہ تھاکہ جنگی جنون میں مبتلا بھارت کو جوابی جنگ کا پیغام دینا مقصود نہیں تھا بلکہ بھارتی پروپیگنڈا کے مقابلے میں دنیا کو ایک پختہ کار اور مضبوط ریاست کا چہرہ دکھانا تھا جو جنگ کی اہلیت بھی رکھتی ہے اور امن کی خواہش بھی۔ ورنہ سورہ انفال کی گھوڑے باندھ رکھنے والی آیت بھی قاری صاحب کو یاد ہی ہوگی ۔بھارت کو پلوامہ حملے سے متعلق ثبوت کی فراہمی کی پیشکش کے باوجود وزیر اعظم نے غیر مبہم اعلان کیا کہ اگر پاکستان کے خلاف جارحیت کی گئی تو سوچا نہیں جائے گا بلکہ جواب دیا جائے گا۔اس سے زیادہ متوازن بات کیا ہوسکتی تھی؟اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک دوستانہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ جب افغانستان میںامریکہ دنیا بھر کی فوجیں اتارنے کے بعد سترہ سال جنگ نہ جیت سکا تو کشمیر میں بھارت کیسے سات لاکھ فوج کے ساتھ اپنا تسلط قائم رکھ سکتا ہے۔اسے اپنے اس رویے پہ غور کرنا ہوگا جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات ہوا کرتے ہیں یعنی دہشت گردی کی جڑیں بھارت اپنی زمین میں تلاش کرے۔ اس کے برعکس ممبئی حملوں سے متعلق نواز شریف کا بیان مکمل طور پہ الزامی نوعیت کا تھا جس پہ اسی وقت تمام سیاسی جماعتوں نے فوری ردعمل دیا تھا۔ اس سلسلے میں خود سرل المیڈا کا بیان موجود ہے جس نے یہ متنازعہ انٹرویو لیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب میں ایک خبر کی تلاش میں موجود تھا جبکہ نواز شریف وہاں جلسہ کررہے تھے جب انہوں نے اس انٹرویو کی خواہش کا اظہار کیا۔ نواز شریف نے واضح طور پہ سوال کیا کہ کیا پاکستان کو غیر ریاستی عناصر کو ممبئی جاکر 150 لوگوں کو مارنے کی اجازت دینی چاہئے تھی؟ اور یہ کہ اب تک ممبئی حملہ کیس کی تحقیقات مکمل کیوں نہیں ہوئیں۔ سرل المیڈا اس بیان پہ بقول خود، ہکا بکا رہ گیا تھا اور اسے محسوس ہوا کہ اس انٹرویو کے بعد پاکستان میں انتخابات کے بعد بہت کچھ بدلنے والا ہے۔اسے حیران ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ یہ آتش گیر سوال ساڑھے تین سال وزارت عظمی پہ فائز رہنے والے شخص نے کیا تھا ۔نواز شریف کے اس بیان نے پاکستان کو ساری دنیا میں ایک خجالت آمیز صورتحال سے دوچار کردیا۔ عسکری قیادت نے قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا اور سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے غلط اور گمراہ کن قرار دیا۔ اس اجلاس کی سربراہی شاہد خاقان عباسی کررہے تھے جو اپنے قائد کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی کوئی توضیح پیش نہ کرسکے۔سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے واضح طور پہ نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پہ یہ بیان واپس لیں۔نواز شریف کے اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے وضاحت کی کہ ممبئی حملہ کیس بھارت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان اس میں ملوث ہے۔ بھارت نے حسب توقع ہنگامہ برپا کردیا اور پاکستان کودہشت گرد ملک قرار دے کر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے اور اس پہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی بیان کو حال ہی میں عالمی عدالت میں کلبھوشن یادیوکیس میں بھارتی وکیل نے بطور گواہی استعمال کیا۔کیا یہ تمام افراد جو اہم اور حساس عہدوں پہ فائز رہے،نواز شریف کے بیان کو غلط طور پہ سمجھتے رہے؟ان کے اس پاکستان کو خطرناک صورتحال سے دوچار کرنے والے بیان کا موازنہ عمران خا ن کے ذمہ دارانہ بیان سے وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کی آنکھوں پہ تعصب کی پٹی بندھی ہو۔عمران خان کی بھارت کو اس پیشکش نے دنیا بھر میں نہ صرف پاکستان کی پوزیشن بہتر کی بلکہ اسے ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک کے طور پہ نمایاں کیا۔عمران خان کے برسراقتدار آنے سے خائف اور پلوامہ واقعہ کے بعد آگ اگلتا بھارتی میڈیا ان کی ا س پیشکش پہ کیوں اس طرح رد عمل دینے سے گریزاں رہا جس طرح اس نے نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق بیان پہ دیا تھا اور ساری دنیا میں پاکستان کو دفاعی پوزیشن پہ کھڑا کردیا تھا؟۔ اس کے برخلاف آتش بجاں مودی بیک فٹ پہ جانے اور امن کی آشا کا راگ الاپنے پہ مجبور ہوگئے۔بھارتی میڈیا جیسا متعصب میڈیا اس فرق کو سمجھ رہا ہے لیکن یار لوگ اسے نواز شریف کے فتنہ پرور بیان سے ملانے پہ تلے ہیں۔یہ کوئی انصاف کی بات ہے؟