روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے 24 فروری کو یوکرائن پر روس کے حملے کے بعد سابق سوویت یونین سے باہر کسی ملک کا دورہ کیا ہے تو وہ ایران کا دورہ ہے جہاں انہوں نے ایرانی قیادت اور ترک صدر رجب طیب اردگان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اردگان، روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے شام پر اختلافات کو دور کرنے کے لیے 19 جولائی کو تہران میں اِیک سربراہی اجلاس منعقد کیا۔ یہ سہ فریقی سربراہی اِجلاس شام میں اِیک دہائی سے زائد عرصے سے جاری تنازع کے خاتمے کے لیے "آستانہ امن عمل" کا حصہ تھا۔ روس اور اِیران آستانہ فارمیٹ کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہ اِسے تشدد کو کم کرنے اور شام میں سفارتی حل کی امید بڑھانے کے لیے ایک موثر طریقہ کار سمجھتے ہیں۔ تاہم، دونوں ممالک اَمریکہ سمیت کسی بھی ملک کی طرف سے شام کے اندرونی معاملات میں کی جانے والی مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں۔روسی صدر کا یہ دورہ اِیران کے ساتھ ماسکو کے تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششوں اور شام کے معاملے پر ترکی کے ساتھ اختلافات کو دور کرنے کی کوششوں کے تناظر میں اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی امریکی کوششوں کے پس منظر میں ہوا ہے جن میں خاص طور پر امریکہ کا سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنا ہے۔ روسی صدر کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے فوری اور طویل مدتی مقاصد کیا ہیں؟ مندرجہ ذیل سطور میں اِن کو زیرِ بحث لایا جائے گا۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں لکھا گیا تھا کہ بائیڈن کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بنیادی مقاصد میں ایران کا گھیراؤ اور عرب ممالک کو اس کے خلاف متحد کرنا ، مشرق وسطیٰ میں روس کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا شامل ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ میں کوئی خلانہ چھوڑنا تھا جو چین پر کرسکے۔ بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کے دو اہم اتحادی اِسرائیل اور سعودی عرب کا دورہ امریکہ کی توجہ ایران پر مرکوز کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکی حکمت عملی کے مطابق، جس کی بنیاد صدر ٹرمپ نے رکھی تھی، بائیڈن نے اَپنے اِتحادیوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ خطے میں امریکی توجہ جاری رکھنے کا وعدہ خالی الفاظ نہیں تھا جبکہ یورپ میں روس اور اِیشیا پیسیفک میں چین کی طرف سے لاحق خطرات پر توجہ مرکوز کرنے سے اس کی توجہ مشرق وسطیٰ سے نہیں ہٹے گی۔ بلکہ اَمریکہ اِیک بار پھر سعودی عرب کو اَنگیج کر رہا ہے تاکہ یہ خطہ چینی اَثر و رسوخ کے دائرے میں نہ آنے پائے۔یوکرائن کی جنگ کے تناظر میں روس اور امریکہ کے درمیان جاری کشمکش اور امریکہ چین مسابقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ روسی صدر کا دورہ اِیران، بنیادی طور پر ایرانی حمایت حاصل کرنے اور ترکی جیسے نیٹو کے رکن ملک کو شامل کرنے کے لیے تھا تاکہ کریملن پر بڑھتے ہوئے امریکی اور یورپی یونین کے دباؤ اور مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ کو بڑھانے کا مقابلہ کیا جاسکے۔ تاہم شام کے معاملے پر ایران اور روس کے ترکی کے ساتھ اختلافات ہیں۔ دونوں ممالک نے ترکی کے ساتھ شام کی سرحدوں میں ترکی کی نئی دراندازی کی پالیسی پر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کی ہے کیونکہ ترکی شام کے ساتھ ملنے والی اپنی جنوبی سرحد کے ساتھ 30 کلومیٹر کے نام نہاد "محفوظ زون" کے قیام کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ تینوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے اور شام میں شہری انفراسٹرکچر سمیت اسرائیلی فوجی حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ مشترکہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ تینوں ممالک شام کے مسئلے بالخصوص شام کی خودمختاری کو برقرار رکھنے کے حوالے سے یکساں خیالات رکھتے ہیں۔ اَمریکہ اور عرب ممالک کے درمیان ہونے والی جدہ سربراہی اجلاس اور تہران میں منعقدہ سہ فریقی سربراہی اجلاس کا موازنہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب دنیا میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بالخصوص سعودی عرب کے درمیان اختلاف اور باہمی اعتماد کا فقدان ہے جب کہ روس عرب ممالک کے مزید قریب آرہا ہے۔ ریاض نے تیل کی پیداوار بڑھانے کا واشنگٹن کا مشورہ قبول نہیں کیا۔ واشنگٹن کے دباؤ کے باوجود اِس بات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر جلد ہی کسی بھی وقت ماسکو کے ساتھ توانائی اور تجارت کے معاملات کو روک سکتے ہیں۔ جبکہ تہران سربراہی اجلاس مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک مشترکہ نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے۔ نیٹو اتحادیوں کی جانب سے فضائی دفاعی نظام سے انکار کے بعد ترکی نے S-400 نظام کی خریداری کے لیے روس کا رخ کیا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب روسی دفاعی نظام کی خریداری کے لیے روس سے بات چیت شروع کر رہا ہے۔عالمی طاقتوں کے درمیان مخاصمتوں کے باوجود، مشرق وسطیٰ کے بڑے کھلاڑی کسی بھی عالمی طاقت کے ساتھ تعاون کے لیے اپنے آپشن کھلے رکھنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ سعودی عرب اور ایران، اسلام کے مختلف فرقوں کے کٹر پیروکار ہونے کے ناطے، شاید سخت حریف ہیں لیکن وہ خلیج میں کشیدگی کو کم کرنے جبکہ عراق، شام، لبنان اور یمن جیسے علاقائی مسائل پر ایک دوسرے کو ایڈجسٹ کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے براہ راست سفارتی بات چیت میں شامل ہیں۔ علاقائی اور عالمی حرکیات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاص طور پر مغربی ممالک کی طرف سے لگائی جانے والی بدترین اقتصادی پابندیوں اور امریکہ کے مسلسل دباؤ کا شکار روسی صدر پیوٹن کے دورہ ایران نے ایران کو کسی حد تک ریلیف پہنچایا ہے اور اِیران کے اِعتماد میں اِضافے کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذ پر ایران کے تنہا ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کا بھی سبب بنا ہے۔ اِسی طرح پیوٹن کے لیے، جنہیں امریکی قیادت میں مغربی دنیا کی شدید تنقید کا سامنا ہے، ایران کا دورہ ایک جیت کا آپشن ہے کیونکہ روس کو مشرق وسطیٰ کی سیاست کی بساط پر اپنی پوزیشن محفوظ کرنے کے لیے ایران کی ضرورت ہے۔