مقولہ تو یہ تھا کہ جنگ میں پہلا قتل ’’سچ‘‘ کا ہوتا ہے لیکن عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بھی سب سے بڑا مقتول سچ ہی ہے۔ کوئی سیاسی جماعت بھی اپنے کارکنوں کو سچی بات بتانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے لیکن پاکستان کے سیاستدان خوشحالی کی بلند ترین سطح پر محوِ پرواز ہیں۔عام آدمی کی سطح پر زندگی گزارنے والے سیاستدان انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ بلاشبہ سیاست ہی اس ملک کا نفع بخش ترین کاروبار ہے۔کسی کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے کپڑے بیچ کر بھی عوام کو سستا آٹا مہیا کرے گا۔اور کسی کا دعویٰ ہے کہ اس کی انگلستان تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ اپنا دعویٰ غلط ثابت ہونے پر کوئی بھی سیاستدان معذرت کے لئے تیار نہیں ہے۔ اپنی چرب زبانی سے وہ ہر جھوٹ کو سچ ثابت کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے اس سیاسی ماحول میں عدلیہ اور دفاعی اداروں کا کردار بڑی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ عدلیہ اور دفاعی ادارے لاکھ کوشش کریں کہ وہ سیاست سے کنارہ کش رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی رہنما انہیں کسی نہ کسی طرح سیاست میں گھسیٹ ہی لیتے ہیں۔ جب پاکستان سالمیت کو سوال پیدا ہو جائے یا پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے تو اداروں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج تحریکِ انصاف پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہے اور عمران خان اس ملک کا مقبول ترین لیڈر۔ عمران خان کی حکومت کے آخری دنوں میں اس کی غیر مقبولیت اپنے عروج پر تھی۔ اگر عمران خان اسی رفتار سے حکومت جاری رکھتے ہوئے اپنا عرصہ اقتدار مکمل کر لیتا تو شاید آئندہ الیکشن میں اسے اپنی سیٹ کے بھی لالے پڑ جاتے لیکن حالات نے ایسی کروٹ لی کہ وہ اقتدار کھونے کے بعد چند دن میں ہی پاکستان کا مقبول ترین لیڈر بن گیا اور اس کی جماعت پاکستان کی واحد ملک گیر جماعت بن گئی۔ عمران خان کا حقیقی آزادی کا بیانیہ آج پاکستان کا مقبول ترین بیانیہ ہے۔ عمران خان کے مریضوں نے اس بات کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اس قوت کے ساتھ کھڑا ہو گا کہ اس کے مریضوں کے لئے عوام میں نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ عمران نے پہلے تو روزانہ کی بنیاد پر عوامی جلسے کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا اور آخر کار حقیقی آزادی مارچ کا اعلان کر کے اپنے مخالفین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ موجودہ حکومت کے فسطائی حربوں کے باوجود عمران خان ہزاروں لوگوں کے ساتھ مارچ کرتا ہوا دارالحکومت میں داخل ہوا۔ اگرچہ بے حساب رکاوٹوں، آنسو گیس، لاٹھی چارج اور پولیس کے روایتی ہتھکنڈوں کی وجہ سے عمران خان کو پشاور سے اسلام آباد پہنچنے میں 26گھنٹے لگ گئے اور وہ 26مئی کو علی الصبح ساڑھے سات بجے اسلام آباد پہنچ سکا۔ وزیر داخلہ کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کہ وہ بیس آدمیوں کو بھی اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ ہزاروں لوگ عمران خان کے ہمراہ اسلام آباد میں داخل ہوئے اور ہزاروں لوگ ڈی چوک کے قریب کے علاقے میں اس کے منتظر تھے۔ آنسو گیس اور پولیس گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے مردوزن اور بچے ایک عجیب منظر پیش کر رہے تھے۔ اس مارچ سے سب سے بڑا مقصد جو عمران خان کو ملا ہے، وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ممی ڈیڈی اور برگر کلاس کہنے والے لوگوں کا منہ بند ہو گیا۔ آج عام لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی دوسری جماعت ہے جس کے کارکن حکومت غنڈہ گردی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ وہ اس کا موازنہ تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں سے کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بہادری اور استقامت نے عمران خان کو بھی ایک نیا حوصلہ دیا ہے۔ عمران خان کا دھرنے کے فیصلے کو ملتوی کرنا بھی قومی مفاد میں ہے اور اس کے لئے قومی اداروں کو کریڈٹ نہ دینا بھی زیادتی ہو گی۔ اعلیٰ عدلیہ نے آئین پاکستان کی روشنی میں جس طرح امن و امان کے لئے بروقت فیصلے کئے وہ قابل تحسین ہے۔ حتمی تجزیے میں یہ ایک سیاسی جدوجہد ہے کوئی دشمن ملک کے خلاف ونگ نہیں ہے کہ ساری حدوں کو پھلانگا جائے اور عوام کو زندگی سے کھیلا جائے۔ میری ناقص رائے میں عمران خان نے بعض لوگوں کی توقع کے برعکس بڑی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے ضدی اور ہٹ دھرم ہونے کے تاثر کو زائل کیا ہے جو اس کی سیاست کے لئے ایک بہتر شگون ہے۔ عمران حکومت کے خلاف مہنگائی مارچ کرنے والے آج پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں یکمشت 30روپے فی لیٹر کا اضافہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ عمران خان کی حکومت میں دو تین روپے کے اضافے کو پٹرول بم گرانے کا نام دیا جاتا تھا۔ اس حساب سے تو یہ یقینا ایک ایٹم بم سے کم نہیں ہے۔ اس سے ثابت یہ ہوا ہے کہ ہمارے سیاستدان کبھی بھی عوام کی تکالیف کے پیشِ نظر باہر نہیں نکلتے۔ ان کا واحد مقصد حصولِ اقتدار ہوتا ہے۔ جب اقتدار مل جائے تو ان کے نظریات یکسر بدل جاتے ہیں۔ ماڈل ٹائون میں نصف شب چھاپوں کے دوران ایک پولیس اہلکار کی شہادت یقینا قابلِ افسوس ہے۔ اس کی بے لاگ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ لیکن اس واقعے کو جس طرح اچھالا گیا اور اس پر آنسو بہائے گئے اس کا تعلق یقینا سیاست سے ہے۔ یہ اہلکار پاکستان کا پہلا شہید نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی ہم نے شہیدوں کے ساتھ ن لیگ کا رویہ دیکھا ہے۔ جس طرح حمزہ شہباز اور مریم نواز نے اس کا غم منایا ہے اور اس کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا ہے وہ تحسین کے قابل ہے۔ کاش وہ باقی شہداء کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ رکھیں۔ زندگی میں سیاست ہی ہر چیز نہیں ہے۔ محترمہ مریم نواز کو فنِ تقریر پہ کافی عبور حاصل ہے۔ بدقسمتی سے اس مارچ کے دوران کے دعوے درست ثابت نہیں ہوئے۔ بے حساب تشدد کے باوجود ہزاروں لوگ اسلام آباد پہنچے اور باقی شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے مریم نواز وزیر اعظم کے لہجے میں اصل وزیر اعظم اور عدلیہ کو ہدایات جاری کرتی رہیں۔ نواز شریف سے قربت کی وجہ سے انہیں ایک خاص مقام حاصل ہے لیکن انہیں اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔ اگر وہ پاکستان کی سیاست میں طویل مدتی منصوبے رکھتی ہیں تو انہیں اپنے غیر جمہوری طرز عمل پر نظرثانی کرنی ہوگی ۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ فی الحال سزا یافتہ ہیں اور ضمانت پر رہا ہیں۔ سیاست میں تکبر کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور سیاست میں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ وہ اس کا مشاہدہ ایک سے زیادہ بار کر چکی ہیں۔ انہیں وزیر اعظم کی عزت کا بھی خیال ہونا چاہئے۔ چھ دن بعد کیا ہو گا، کوئی نہیں جانتا۔ سیاستدان کے لئے انکساری بہت بڑا سرمایہ ہوتی ہے۔