لاہور(نمائندہ خصوصی سے /سٹاف رپورٹر)پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پروڈکشن آرڈر کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کیخلاف نعرے لگائے ،اپوزیشن نے حمزہ شہباز شریف ، خواجہ سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے ، برطانوی اخبار کی جانب سے عائد کئے گئے الزامات اورنواز شریف کو دی جانے والی سزا کے خلاف دائر اپیل جلد سماعت کے لئے نہ لگنے کے معاملہ پر شدید احتجاج کیا۔اجلاس کے دوران صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان اور مراد راس کے خطاب کے دورا ن نعرے بازی، اسمبلی نوٹ بل پھاڑ کر پھینکنے کے سبب ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے اپوزیشن کی ریکو زیشن پر بلایا گیا اجلاس چند گھنٹے بعد ہی غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا جس کے بعد اپوزیش اراکین نے پنجاب اسمبلی کے سیڑھیوں پر احتجاج کیا، نعرے بازی کی ۔تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت ساڑھے 10بجے صبح کے بجائے 11بجکر3منٹ پر شروع ہوا تو اس وقت ایوان میں 68 اراکین موجود تھے ۔ پنجاب اسمبلی میں اجلاس کے دوران شروع سے لے کر آخر تک شور شرابے کی کیفیت رہی۔ وقفہ سولات کے آغاز پر ہی پوائنٹ آف آرڈر پر گفتگو کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر اور اپوزیشن رکن رانا مشہود احمد خان نے کہا کہ علیم خان 100دن نیب تو 80 دن اسمبلی میں رہے ،4 قائمہ کمیٹیوں کے رکن رہے ، اس دوران ان کیلئے رات دس سے گیارہ بجے جیل کے دروازے کھلتے رہے ۔ انہوں نے ڈپٹی سپیکر اور ایوان میں موجود حکومتی اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کھل کر بیان کر دیں کس کا پریشر ہے ، کون مجبور کر رہا ہے ۔ اسمبلی کی اعلیٰ روایات میں جو رکاوٹ ڈال رہا ہے ہمیں بتائیں۔ ہم روکیں گے اور آپ کا ساتھ دیں گے ۔ کسی کی ڈکٹیشن پر اسمبلی نہیں چلنے دیں گے ۔ فردواحد کی نہیں سنی جائی گی۔ اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف ، خواجہ سلمان رفیق ہی نہیں سبطین خان کے پروڈکشن آرڈرز بھی جاری کریں۔اب سلیکشن سے نکل کر پارلیمانی روایات کو آگے بڑھائیں۔ یہ ارکان کا حق ہے کہ ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کئے جائیں۔حمزہ شہباز کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے تک ایوان نہیں چلنے دیں گے ۔ اس موقع پر صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے پوائنٹ آف آرڈر پر جواب دینا چاہا تو اپوزیشن بنچوں کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی۔ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے رولنگ دی کہ پروڈکشن آرڈر کسی کو نہیں دئیے ۔ حکومت کو اور نہ ہی اپوزیشن کو۔ اپوزیشن کی کال پر اجلاس بلایا گیا۔ آپ لوگ دوران میٹنگ کچھ بات اور باہر آکر کچھ اور کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کی کوئی زبان نہیں ۔ رول 97 کو غور سے پڑھ لیں ، اس میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’اگر سپیکر چاہے گا،‘‘ یہ سپیکر کی صوابدید ہے کہ وہ پروڈکشن آرڈرز جاری کرتا ہے کہ نہیں۔ لہذا حکومتی اور اپوزیشن بنچوں میں سے کسی کو بھی پروڈکشن آرڈرز نہیں دئیے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے تنبیہ کے باوجود اپوزیشن اراکین نے رویہ نہ بدلا اور صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان اور مراد راس پر شیم شیم اور دیگر پھبتیاں بھی کستے رہے ۔ جس کے سبب قائم مقام سپیکر دوست مزاری نے اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا۔بعدازاں پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر احتجاج کے بعد ن لیگ کے اراکین اسمبلی نے حکومتی پالیسیوں اور روئیے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ رانا اقبال،رانا مشہود ودیگر نے کہا کہ پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر مشرف دور کی یاد تازہ ہوگی۔قبل ازیں صوبائی وزیر کالونیز فیاض الحسن چوہان نے پریس کانفرنس اور اسمبلی میں تقریر کے دوران کہا کہ شریف فیملی کے داماد ، سسر سمیت سب نے ملک لوٹا، یہ سسلین مافیا ہے ۔ ان کے منہ سے پروڈکشن آرڈر کا لفظ اچھا نہیں لگتا۔ چور اور ڈاکو کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہو سکتا۔زلزلہ متاثرین کے 8 کروڑ علی عمران کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ یہ اپنے دور کی باتیں بھول گئے ہیں۔نام نہاد قاتل اعلی پٹواری اعلی نے پرو ڈکشن آرڈر مونس الہی کے لئے نہیں جاری کیاتھا۔چور ڈاکو اور کرائمنل کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوتے ان کے منہ سے پروڈکشن آرڈر مانگنا اپنے منہ پر تھوکنا ہے ۔خان صاحب نے درست کہا چوروں کے لئے ایوان کا راستہ نہیں کھولیں گے ۔یہ لوگ نیب جیل میں ہیپی برتھ ڈے یاشالیمار باغ میں گھومنے نہیں آئے ۔ضیاء الحق کی گودمیں پلنے والے پٹواریوں کا لب و لہجہ دیکھا ،سارے میرے کھڑے ہونے پر کتھک ڈانس شروع کر دیتے تھے ۔بعدازاں صوبائی وزیر قانون بشارت راجہ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس اپوزیشن کی درخواست پر بلایا گیا۔ بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں طے پایا جمہوریت روایات پر عمل کریں گے ۔مگر اپوزیشن نے جو کمٹمنٹ کی وہ اس پر پورا نہیں اترے ۔