لاہور(محمد نواز سنگرا)پنجاب کے مالی سال 2019-20کے بجٹ میں درجنوں چھوٹے کاروباروں پر ٹیکس متعارف کرنے کی سفارش کی ہے ۔صوبائی آمدن میں اضافہ کیلئے نئے ٹیکسز لگانے کے ساتھ پرانے ٹیکسز کے ریٹس میں بھی اضافہ کیا گیا ہے ۔فنانس بل 2019-20کے مطابق ڈاکٹروں ،حکیموں،آڈٹ فرمز،وکیلوں،ٹیکس کنسلٹنٹس، منی چینجرز،موٹر سائیکل ڈیلرز، ریکروٹنگ ایجنٹس، کیرج آف گڈز،ہیلتھ کلبز، جیولرز، تمباکو وینڈرز،ہول سیلرز، پراپرٹی ڈویلپرز اینڈ بلڈرز، ہوٹلز،ہاسٹلز، ریسٹورنٹس،فاسٹ فوڈ پوائنٹس، آئس کریم پارلرز،بیکریز،مٹھائی کی ائیرکنڈیشنڈ شاپس، کنفکشنریز، آرکیٹکٹس اور انجنئیرز پر ٹیکسز عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔فنانس بل کے مطابق ایسے تمام ہوٹلز اور ہاسٹلز جو کہ تعلیمی اداروں کی ملکیت میں نہیں ہیں ان پر سالانہ 5ہزار روپے ،ائیرکنڈیشنڈ ریسٹورنٹس، فاسٹ فوڈ پوائنٹس، آئس کریم پارلرز، مٹھائی کی دکانوں اور کنفکشنریز پر سالانہ 5ہزار ،پراپرٹی ڈویلپرز اور بلڈنگ اینڈ مارکیٹنگ ایجنٹس پر سالانہ 50ہزار،فرنچائزی، ڈیلرز اینڈ ایجنٹس پر سالانہ5ہزار، تمباکو وینڈرز ہول سیلرز پر 4ہزار روپے ، میڈیکل کنسلٹنٹس ،ڈینٹل سرجنز پر 5ہزا رروپے سالانہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے ۔کنٹریکٹرز،بلڈز ، پراپرٹی ڈویلپرز جو وفاقی و صوبائی حکومت کی کسی کمپنی یا لوکل اتھارٹی کو سپلائی دیتے ہیں ان پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے ،ان پر دس لاکھ سپلائی تک ایک ہزار،دس لاکھ سے ایک کروڑ تک 6ہزار،ایک کروڑ سے پانچ کروڑ تک 10ہزار اور پانچ کروڑ سے اوپر کی سپلائی پر 20ہزار روپے سالانہ ٹیکس عائد کیا گیا ۔مختلف اشیاء کی درآمد،برآمد پر بھی ٹیکس عائد کیا گیا۔ایک لاکھ سے دس لاکھ کی درآمد پر 2ہزار روپے ، دس لاکھ سے 50لاکھ کی درآمد ،برآمد پر 3ہزار جبکہ 50لاکھ روپے سے زیادہ کی درآمد،برآمد پر 5ہزا ر ،میٹروپولیٹن ،میونسپل کارپوریشن کی حدود میں آنے والی ایسی کمپنی جس کے د س یا زیادہ ملازمین ہیں اس پر 6ہزار جبکہ دیگر پر 4ہزار ، ہول سیلرز اور ریٹیلرز پر 2ہزار روپے ماہانہ ٹیکس عائد کیا گیا ۔کمپنی ایکٹ 1932کے تحت رجسٹرڈ فرم جو کہ کمپنی ڈکلیئر نہیں ہے جس کے ملازمین دس سے کم ہیں اس پر 1500روپے سالانہ،دس سے 25ملازمین والے پر5ہزار روپے جبکہ 25ملازمین سے زیادہ رکھنے والی فرم پر سالانہ75سو روپے ٹیکس عائد کیا گیا ۔ایسی کمپنیز جو کہ کمپنیز آرڈیننس 1984کے تحت رجسٹرڈ ہیں ایسی کمپنی جس کا سرمایہ 50لاکھ تک ہے اس پر 10ہزار روپے ، پچاس لاکھ سے 5کروڑ تک سرمائے والی کمپنی پر 30ہزار ، پانچ کروڑ سے 10کروڑ والیوم پر 70ہزار ، 10کروڑ سے 20کروڑ یا اس سے زیادہ حجم رکھنے والی کمپنی پر ایک لاکھ روپے ٹیکس عائد کیا گیا ۔میٹروپولیٹن ، میونسپل کارپوریشنزکی حدود میں رجسٹرڈ ریکروٹنگ ایجنٹس پر 20ہزار، موٹر کار ڈیلرز اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹس جو میٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشن کی حدود میں آتے ہیں ان پر 20ہزار دیگر پر 10ہزار روپے سالانہ ٹیکس عائد کیا گیا ۔موٹر سائیکل /سکوٹر ڈیلرز پر جومیٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشنز کی حدود میں آتے ہیں ان پر 10ہزار دیگر پر6ہزار ،منی چینجرز جو میٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشنز کی حدود میں آتے ہیں ان پر 6ہزار روپے دیگر پر 2ہزار روپے سالانہ ٹیکس ،کنسلٹنٹس،انجنیئرز ،آرکیٹکٹس جو میٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشنز کی حدود میں آتے ہیں ان پر 6ہزار دیگر پر 4ہزار سالانہ ،میٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشن کی حدود میں آنے والی آڈٹ فرمز پر 6ہزار دیگر پر 4ہزار روپے ٹیکس عائد کیا گیا ہے ،میٹروپولیٹن، میونسپل کارپوریشن کی حدود میں آنے والے ہیلتھ کلبز پر 4ہزار دیگر پر 2ہزار روپے ٹیکس عائد کرنے کی سفارش کی گئی ۔ ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی تک کے مالکان کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے ۔پچیس ایکڑ تک تین سو روپے سالانہ ،پچاس ایکڑ تک 400 جبکہ پچاس سے زائد اراضی پر 500 روپے سالانہ ،باغات پر بھی 300 سے 600 روپے سالانہ ٹیکس عائد کیا گیا ،کاشتکاروں پر زرعی انکم ٹیکس کی شرح کے مطابق4 لاکھ تک آمدنی والے کاشتکار کو ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے ۔4 سے 8 لاکھ آمدن پر 1 ہزار انکم ٹیکس ،8 سے 12 لاکھ آمدن کی صورت میں 2 ہزار سالانہ،12 سے 24 لاکھ زرعی آمدن پر 5 فی صد،24 سے 48 لاکھ زرعی آمدن پر 60 ہزار جبکہ48 لاکھ سے زائد آمدن پر 3 لاکھ روپے سالانہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ان ٹیکسوں کا براہ راست بوجھ پنجاب کے عوام پر پڑے گا۔ سب سے زیادہ ٹیکس بورڈ آف ریونیو وصول کریگا ۔ جس کا حجم 81 ارب روپے ہے جبکہ پراپرٹی ٹیکس کی مد میں 14 ارب روپے وصول ہونے کا امکان ہے ۔ لگژری ہائوسز سے ایک ارب روپے کا لگژری ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ بجٹ میں جائیداد یا سونا رہن رکھنے کے لئے استعمال ہونے والے اسٹامپ کی حد میں اضافہ کر دیا گیا ۔بنکنگ کمپنیوں یا مالیاتی اداروں کی طرف سے استعمال ہونے والے اسٹامپ کی مالیت ایک لاکھ روپے سے پانچ لاکھ کر دی گئی مگر ڈیوٹی برقرار رکھی گئی ہے ۔ لاہور(کامرس رپورٹر،نمائندہ خصوصی سے )حکومت پنجاب کا آئندہ مالی سال2019-20 کے لئے 23 کھرب 57 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا جس میں ترقیاتی پروگرام کی مد میں ساڑھے تین سو ارب خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ، بڑی گاڑیوں پر لگژری ٹیکس ختم کرنے کا منصوبہ بھی بجٹ دستاویزات کا حصہ ہے ،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پانچ سے دس فیصد تک اضافے جبکہ وزیراعلیٰ اور وزرا کی تنخواہوں میں دس فیصد کمی کی تجویز دی گئی ہے ، خسارے کے بجٹ میں آمدن کا تخمینہ 1990 ارب روپے لگایا گیا ہے ۔ غیر ترقیاتی بجٹ میں دو اعشاریہ60 فیصد جبکہ ترقیاتی بجٹ میں 47 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے ۔خراج شہدا،باہمت بزرگ پروگرام، پناہ گاہ،پنجاب ٹورازم اتھارٹی،ہم قدم اورنئی زندگی پروگرام کے نام سے پروگراموں کے لئے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اپوزیشن کے شدید احتجاج ، نعرے بازی اور شورو غل کے باوجود پنجاب اسمبلی میں صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے بجٹ تحمل کے ساتھ پیش کیا۔ بجٹ میں آئندہ مالی سال کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام 350ارب رکھا گیا، جو رواں برس سے 47 فیصد زیادہ ہے جبکہ جاری اخراجات کا تخمینہ 1717 ارب 60 کروڑ روپے لگایا گیا ۔ آئندہ مالی سال میں پنجاب کو وفاق سے این ایف سی کی مد میں 1601 ارب ملیں گے ۔زرعی شعبہ کے لئے 24 فیصد اضافے سے 113 ارب 60 کروڑ روپے مختص جبکہ عوامی تحفظ اور امن وامان پر 6 اعشاریہ 2 فیصد اضافے سے 181 ارب 60 کروڑ خرچ کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ تنخواہوں کی مد میں 337 ارب 60 کروڑ روپے ، پنشن پر 245 ارب روپے خرچ ہونگے ۔ صوبائی مالیاتی کمیشن کے تحت اضلاع کو 437 ارب جاری کئے جائیں گے ۔ آئندہ مالی سال میں پنجاب میں ٹیکس اور نان ٹیکس آمدنی 388 ارب 40 کروڑ روپے ہوگی۔پنجاب ریونیو اتھارٹی 166 ارب 60 کروڑ جبکہ بورڈ آف ریونیو 81 ارب 20 کروڑ روپے اکٹھے کریگا۔احساس پنجاب پروگرام کے تحت صوبے بھر میں شیلٹر ہوم اور پناہ گاہوں کا قیام عمل جاری رہے گا۔ غریب بیواؤں اور یتیموں کی مالی امدادکیلئے دو ارب روپے سے پنجاب سرپرست پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ بے روزگار نوجوانوں کیلئے 12 ارب روپے کے بلا سود قرضے دینے کی تجویز دی گئی ۔ کسانوں کو سبسڈی کے لئے ایگری کریڈٹ سمارٹ کارڈ کا اجرا ہوگا۔آب پاک اتھارٹی کے لئے آٹھ ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی۔ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو مفت ادویات کیلئے ڈیڑھ ، پنجاب بھر میں 64 کالجز کی تکمیل کے لئے 2 ارب 10 کروڑ روپے خرچ کئے جائینگے ۔ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کا 35 فیصد جنوبی پنجاب کے لئے مختص کیا جا رہا ہے ، مختص رقوم کو کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکے گا ۔ مالی سال 2019-20 جنوبی پنجاب کے نمایاں ترقیاتی منصوبہ جات میں ملتان میں نشتر ٹو ہسپتال، رحیم یار خان میں آئی ٹی یونیورسٹی فیز II- اور شیخ زاید ہسپتال فیز II- ، ڈی جی خان میں انسٹیٹوٹ آف کارڈ لوجی یونیورسٹی اور سیف سٹی پراجیکٹ، لیہ میں 200 بستروں پر مشتمل زچہ و بچہ ہسپتال اور بہاولپور میں چلڈرن ہسپتال کا قیام شامل ہیں۔ تونسہ اور مظفر گڑھ میں انڈسٹریل اسٹیٹس کے منصوبے بھی آئندہ بجٹ کا حصہ ہیں۔ 9 جدید ہسپتالوں کے قیام کا اعلان کیا گیا ۔ یہ ہسپتال لیہ، لاہور، میانوالی، رحیم یار خان، رالپنڈی، بہاولپور، ڈی جی خان، ملتان اور راجن پور میں تعمیر کئے جائیں گے ۔ فنکاروں اور ہنرمندوں کی مالی امداد میں خاطر خواہ اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ فیصل آباد میں 23 ارب روپے کی لاگت سے علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کے نام سے ایک بڑے صنعتی مرکز کے قیام کا منصوبہ تیار کیا گیا، پچھلی حکومت کی بدانتظامی کا شکار قائداعظم اپیرل پارک شیخوپورہ کو فعال کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ سرسبز پاکستان پروگرام کے لئے پانچ کروڑ 20 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔۔بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا گیا اور نعرے بازی کی جبکہ بجٹ کاپیوں کو بھی پھاڑ دیا گیا۔بعدازاں سپیکر نے پیر (17جون)تک کے لئے اجلاس ملتوی کر دیا۔