لا ہو ر (میاں رؤف )پنجا ب مستقبل کے معماروں کے حوا لے سے غیر محفو ظ ہو گیا ،ایک سا ل میں صوبہ بھرسے ایک ہزار 42 بچے اغوا اور لاپتہ ہوگئے ۔سیف سٹی کیمرے ،جدید ٹیکنکل آلا ت اور پو لیس کو پیشہ وارانہ حوا لے سے بہترین فو رس قرار دینے کے دعو ے دھر ے کے دھر ے رہ گئے ،صوبہ بھر سے اغوا اور لاپتہ ہو نے بچو ں میں سے 182 با زیا ب نہ کرائے جا سکے جبکہ انکے والدین خوار ہو رہے ہیں ،اس امر کا انکشا ف ایک رپو رٹ میں کیا گیا جسکے بعد آ ئی جی پنجا ب پو لیس انعام غنی نے ذمہ داروں کو گا ئیڈ لا ئن جا ری کر دی جس کی روشنی میں عمل درآمد نہ کر نے وا لے پو لیس افسروں اور ما تحتوں کو سزاوجزا کے عمل سے گز رنا پڑے گا ۔ذرا ئع کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس کی غیرسنجیدگی اورعدم توجہی کے باعث صوبہ بھر اوسطا 3بچے اغوا ہونے لگے ہیں۔پولیس کے اعدادوشمار کی بات کی جائے تورواں سال صوبہ بھر سے ایک ہزار42بچے اغوا کرلئے گئے ۔صوبہ بھر سے اغوا ہونے والے بچوں میں سے اغوا ہونے والے 33 فیصد بچے لاہور سے اغوا ہوئے ہیں جو کہ سیف سٹی کے کیمروں سے نام نہادمانیٹرنگ کے دعوئوں اوررنگ برنگی فورسز کی کارکردگی کا منہ چڑا رہی ہے ۔رواں سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران لاہورسے 344بچے کو اغواکیا گیا جن میں سے 293بچوں کو بازیاب کرالیا گیا جبکہ 61بچے ابھی بھی لاپتہ ہیں۔گزشتہ 3سالوں میں اغوا ہونے والوں میں سے 39بچوں کا تاحال لاہورپولیس سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے ۔اغوا ہونے والے 1ہزار 42بچوں میں سے صوبہ بھر میں اب تک 860بچے بازیاب کرائے گئے جبکہ 182مائوں کے لخت جگرلاپتہ ہیں۔صوبہ بھرمیں گزشتہ 3سالوں سے 90بچے تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ۔اعداد وشمار نے پولیس کارکردگی کا پول کھول دیا۔حکومت کی جانب سے پولیس کوسب سے زیادہ بجٹ اورہرطرح کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا اغوا ہونا پولیس کے لئے لمحہ فکریہ ہے ؟۔