اسلام آباد (خبر نگار،مانیٹرنگ ڈیسک )جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا معلوم کل کسی کے کہنے پر پولیس مجھے ملزم بنا دے ۔سپریم کورٹ میں شوہر کے قتل کے الزام میں گرفتار خاتون کی درخواستِ ضمانت کی سماعت ہوئی تو عدالت نے 50 ہزار روپے کے مچلکے کے عوض درخواست منظور کرتے ہوئے ملزمہ کی رہائی کا حکم دیا۔عدالت نے پنجاب پراسیکیوشن اور پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پولیس کا ادارہ جعلی مقدمات کے ذریعے پیسے بنانے کیلئے نہیں، تفتیشی افسران کو ایک ایک ماہ جیل بھجوانا پڑیگا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صرف کسی کے کہنے پر حاملہ خاتون کو ملزم بنا دیا، کیا معلوم کل کسی کے کہنے پر مجھے ملزم بنا دے ، تفتیشی افسر کو یہ بھی معلوم نہیں مقتول کے بھائی شادی شدہ ہیں یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی کو شرم ہے نا حیا، پنجاب پولیس آخر کر کیا رہی ہے ، گرفتاری کے وقت خاتون 3 ماہ کی حاملہ تھی اورجیل میں بچے کو جنم دیا، حاملہ خاتون اپنے شوہر کو بلاوجہ کیسے قتل کر سکتی ہے ۔ دریں اثنائحج کے نام پر لوگوں سے پیسے لوٹنے اوردھوکہ دہی کے ملزم فیض اﷲ کو سپریم کورٹ سے ریلیف مل گیا،عدالت نے ملزم کی اپیل جزوی طور پر منظور کرکے 5 سال قیدختم اورجرمانہ کم کردیا ہے ۔ مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو لوٹنا اچھی بات نہیں مگر12سال میں زیادہ تر متاثرین کے پیسے بھی واپس کردیئے گئے ہیں۔عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر5سال قیدختم کرتے ہوئے جرمانہ 50ہزار روپے کردیا۔ ٹرائل کورٹ نے ملزم فیض اﷲ کو 50 لاکھ جرمانہ اور 5 سال کی قید سنائی تھی جسے ہائیکورٹ نے بھی برقراررکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے نیب مقدمے میں ملزم ا نجینئراحمد یار گوندل کی بریت کے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیب کی اپیل خارج کردی ۔ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو دھوکہ دہی سے نوکری حاصل کرنے پر 5 سال قید اور 5 ہزار جرمانہ کیا تھا تاہم ہائیکورٹ نے تقرری درست قراردی تھی ۔ دریں اثناء سپریم کورٹ نے انسانی سمگلنگ کے مبینہ ملزم محمد صادق عرف حاجی طالب کی درخواست ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی ہے جبکہ ڈکیتیوں کے 30 مقدمات کے ملزم ارسلان مسیح کی درخواست ضمانت پر سماعت تفتیشی افسر کی طرف سے ملزم کے مقدمات کی تفصیلات پیش نہ کرنے پرایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی ۔ سپریم کورٹ سے اقدام قتل کے رتن نامی ملزم کی عبوری ضمانت خارج ہونے پر کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید خان نے سوال اٹھایا کہ سندھ ہائیکورٹ ضمانت کے مقدمات پر اتنا وقت کیوں لگا رہی ہے ؟۔ چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ اگر فوجداری مقدمات سے منسلک ضمانت کے مقدمات کے فیصلے کرنے میں دو سے تین سال لگتے ہو تو پھر اصل اپیلوں میں کیا کچھ ہوتا ہوگا۔