دل تو چاہ رہا تھا کہ آج لکھا جائے دنیائے روحانیت کے کسی نام پر … اس کے میٹا فزیکل افکار پر … اس کے مادی دنیا پر اثرات و نتائج پر … دل یہ بھی چاہ رہا ہے کہ اس جمہوریت نامی حسینہ کے حسن و ادا، عشوہ غمزہ، زلف و رخسار پر بات کی جاتی جس کی دانشور دن رات تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ مغربی جمہوریت دراصل ایک Myth ہے۔ اکثریت کو دی جانے والی چوسنی ہے۔ معاشرے بددعائے ہوں، نیتیں فتور زدہ ہوں تو… خیر یہ کہانی پھر سہی۔ قلم مجھے دھکیل کر پنجاب کے اس پاور پلے کی طرف لے جانا چاہتا ہے جو اقتدار کی غلام گردشوں میں کھیلا جارہا ہے۔ عثمان بزدار کا میٹریل اور مینوفیکچرنگ سوفٹ ویئر کبھی بھی پنجاب جیسے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لیے موزوں تھا ہی نہیں۔ ہاں اگر تونسہ شریف کو ایک صوبہ بنا کر نامزدگی سے کام چلا لیا جائے تو تب وہ شاید کوالیفائی کرجائیں۔ نو من تیل تو نہ تھا مگر رادھا کو میدان میں اتار دیا گیا اور پھر؟ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ہوگیا۔ عمران خان کیسے سیاستدان ہیں؟ وہ فیصلے کیسے کرتے ہیں؟ ان کے مزاج میں کون کون کتنا دخیل ہے؟ ان کے وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات اب تک ان کے لیے کتنی نیک نامی سمیٹ چکے ہیں؟ ان کے کچن اور کیبنٹ کے درمیان وہ خود کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟ ان کے حکومت سنبھالنے سے اب تک ان کے فیصلوں سے کوئی مثبت تاثر نہیں ابھرا۔ اب اگر وہ پنجاب میں اپنے وسیم اکرم کو تبدیل کرکے کوئی بہتر امیدوار لانا چاہ رہے ہیں تو یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ شریف خاندان نے اتنا عرصہ اسلام آباد پر حکمرانی پنجاب عرف تخت لاہور کے ذریعے کی۔ جب وہ اسلام آباد میں نہیں ہوتے تب بھی وہ پنجاب اور لاہور کے ذریعے اسلام آباد کو آن آف کرتے رہتے ہیں۔ تحریک انصاف اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہوئی تو بڑا تجسس تھا کہ پنجاب کی خدمت کا ھُما کس کے سر پر بیٹھے گا۔ بڑے ناموں پر برین سٹارمنگ ہوئی۔ مراد راس سے یاسر ہمایوں تک بڑی کوڑیاں لائی گئیں۔ مگر جب تھیلے سے بلی باہر آئی تو یہ کلائمکس کا اینٹی کلائمکس ثابت ہوا۔ بعض قلم کار بھائیوں نے بڑی کوشش کی کہ خادم اعلیٰ عرف سیاسی وسیم اکرم میں کوئی خوبی تلاش کرسکیں مگر بات تھی کہ بنائے نہ بن رہی تھی اور خوبیاں اس قدر تھیں کہ چھپائے نہ چھپ رہی تھیں۔ ایسے میں پنجاب حکومت کے ایک ترجمان منظر عام پر آئے جن کا نام غالباً شہباز گِل ہے۔ پڑھے لکھے کلچرڈ انسان ہیں۔ اگر بزدار صاحب میں دم ہوتا تو ان کے باشعور ترجمان ان کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے مگر گاڑی سٹارٹ نہ ہوسکی۔ عمران خان کو بزدار صاحب کا مشورہ کس نے دیا اور کیوں دیا؟ یہ راز ابھی تاریخ کے بطن سے برآمد ہونا باقی ہے۔ بہرحال عمران خان شہباز گِل سے متاثر ہوئے اور انہیں پنجاب حکومت کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کے لیے مزید اختیارات سونپ دیئے۔ مگر پاور کا اتنا بڑا خلا مشکل سے ہی پُر ہوتا ہے۔ ویسے بھی جس صوبے میں گورنر محمد سرور، چوہدری پرویز الٰہی اور راجہ بشارت جیسے راجہ بھوج ہوں وہاں کسی کی دال کیا گلے گی۔پنجاب میں اقتدار اور فیصلوں کے مراکز ایک نہیں کئی ہیں۔ ایسے میں چیف سیکرٹری ٹرانسفر، پوسٹنگ اور دیگر امور میں خادم اعلیٰ کی بجائے دیگر مراکز کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کی جنبش ابرو کے منتظر بھی رہتے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا ادراک ہر سُو ہے۔ مؤثر حلقوں نے دو تین بار اس جانب نشاندہی بھی کی مگر پھر ایسا چیف سیکرٹری لایا گیا جو توازن برقرار رکھ سکے، صوبے کے فیصلوں میں مختلف مراکز کی آراء کا۔ خبریں اُڑتی رہیں ، کسی نے کہا کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ کو جہانگیر ترین نے ٹپ کیا تھا کہ اگر ان کی نااہلی ختم ہوجائے تو وہ بزدار صاحب کو استعفیٰ دلوا کر خود پنجاب کو کنٹرول کرسکیں۔ مگر ترین صاحب نجی حلقوں میں اس تاثر کو شدت سے رد کرتے ہیں۔ بعض ستم ظریفوں نے تو یہ بھی لکھ دیا کہ یہ استخارے کی پیداوار ہیں۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف ماڈل کی گورننس کے بعد بزدار ماڈل تحریک انصاف کے فیصلہ سازوں کے لیے کوئی نیک نامی نہیں لاسکا۔ منفرد کالم نگار برادرم حسن نثار صاحب کلب روڈ پر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرکے کمرے سے باہر نکلے تو سامنے خادم اعلیٰ، اسلم اقبال، دیگر وزراء اور ایک میڈیا ٹائیکون بھی موجود تھے۔ بزدار صاحب نے حسن نثار صاحب سے کہا ’’آپ کا کیا حال ہے‘‘؟ حسن نثار صاحب نے جواب دیا ’’میں تو وہ کام کررہا ہوں جو مجھے آتا ہے۔ آپ سنائیں آپ کا کیا حال ہے‘‘؟ اس جملے کے بعد پنجاب کابینہ کے بعض وزراء اور میڈیا ٹائیکون کا تاثر کیا تھا؟ یہ کہانی پھر سہی۔ آج کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ کے لیے لابنگ اور فیصلے کی ابتدا ہوچکی ہے۔ پنجاب کابینہ کے دو بڑے نام اس ریس میں سب سے آگے ہیں۔ علیم خان کے امکانات زیادہ تھے اگر انہیں نیب نے اپنے احتساب کے جکڑ بند میں نہ پھنسایا ہوتا۔ اسلم اقبال خاصے طاقتور امیدوار ہیں۔ مشرف کا عہد تھا، لوکل باڈیز میں ناظم کے الیکشن ہورہے تھے۔ دوپہر کے ایک اخبار میں مَیں اسسٹنٹ ایڈیٹر تھا۔ ایڈیٹر نے کہا آپ کچھ ناظموں کا انٹرویو خود کریں اور اپنی ٹیم بھی بنالیں۔ فرنٹ پیج پر ان کی تصویروں اور بیانات بھی ہائی لائٹ کریں۔ ان میں ایک نام اسلم اقبال بھی تھا۔ صبح الیکشن تھا، باقی امیدوار زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ اسلم اقبال نے بتایا کہ وہ قائد اعظم یونیورسٹی سے گولڈ میڈلسٹ ہے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے کچھ دیر کے لیے اجازت طلب کی کہ ابھی آتا ہوں۔ کچھ دیر کے بعد میں دوسرے کمرے میں گیا تو موصوف نماز پڑھ رہے تھے۔ میرے ساتھ ایک بڑا سینئر فوٹو گرافر بھی تھا۔ اسے میں نے یہ بتایا کہ ناظم کے امیدوار دوسرے کمرے میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس فوٹو گرافر نے اسلم اقبال سے جو کہا وہ ایک دعائیہ جملہ تھا۔ اسلم اقبال سے اس کے بعد جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں میرے کانوں میں وہ جملہ سرگوشیاں کرتا ہے۔جب اسلم اقبال کا نام وزارتِ اعلیٰ کی ریس میں آیا تو اسی فوٹو گرافر کو فون کیا اور اسے اس کا جملہ یاد دلایا۔ اسلم اقبال پر تمام حلقے متفق ہیں۔ مگر ایک فیکٹر جس کا میں ذکر نہیں کرنا چاہتا کہیں ایکس فیکٹر نہ بن جائے۔ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ میں تبدیلی ایک خوش آئند بات ہے۔ علیم خان ہوں یا اسلم اقبال یا کوئی اور … یہ مشکل ترین وکٹ پر بیٹنگ ہے۔ اس میں بہت سے اگر اور مگر بھی ہیں۔ مگر پھر سہی۔