چیف جسٹس پاکستان نے صاف پانی سمیت 56کمپنیوں میں مالی بے ضابطگیوں کا معاملہ نیب کو بھجوا کر دس روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب میں 56کمپنیوں کا کیس جس طرح نمٹانے کی جانب لے جایا گیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ ان کمپنیوں کے سی ای اوز نے قومی خزانے سے تنخواہوں کی مد میں لاکھوں روپے بٹورے ہیں۔ روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق 62افسران نے پے سکیل تنخواہ سے 63کروڑ روپے زائد وصول کیے ہیں۔ درحقیقت گزشتہ پانچ سال میں قومی خزانے کو بے رحمی سے لوٹا گیا۔ اپنے چہیتے افسران کو نوازنے کے لیے عہدوں کی بندربانٹ کی گئی اور پھر انہیں منہ مانگی تنخواہیں بھی دی گئیں۔ ماضی میں اگر کسی سیاسی جماعت کی کرپشن پر ایکشن لیا جاتا تو کچھ دنوں کے بعد کیس التوا میں ڈال کر چپکے سے سازباز کر لی جاتی لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا اور عدالت نے 56کمپنیوں کے کیس کو ترجیحی بنیادوں پر سنتے ہوئے نیب کو بھجوا دیا ہے جبکہ نیب پہلے ہی بے رحم اور بلا تفریق احتساب کے نعرے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس لیے اب امید قائم ہوئی ہے کہ پنجاب کے عوام کو انصاف ملے گا۔ قومی خزانے سے چور دروازے سے نکالی گئی رقم واپس آئے گی۔ عدالت نے پانی کی قلت پوری کرنے کے لیے دو ڈیم بنانے کا حکم دیا۔ تمام سیاستدانوں سے لوٹی رقم نکلوا کر ڈیمز فنڈز میں جمع کرائی جا سکتی ہے۔ 56کمپنیوں کے علاوہ بھی پنجاب کے میگا منصوبوں میں اربوں روپے کی خردبرد ہوئی ہے۔ اورنج ٹرین منصوبے میں ٹھیکیداروں کو کس طرح نوازا گیا سب کی چھان بین کی جائے اور جن جن لوگوں نے کسی بھی مد میں قومی خزانے سے پیسے لیے وہ سب واپس لیے جائیں۔ اس سے ملکی معیشت بھی مضبوط ہو گی اور ڈیمز بھی آسانی سے بن جائیں گے۔