پنجاب میں کھچڑی پک رہی ہے۔ معاملات تقریباً طے ہیں لیکن کچھ لوگ چانس لینا چاہتے ہیں۔ معاملہ چونکہ ابھی بند دروازوں کے پیچھے ہے اس لیے سب فلم کا وہ سین قابل دید قرار دے رہے ہیں جس میں وہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے مسلم لیگی دوست پر جوش ہیں ان کا خیال ہے کہ شہباز شریف لندن سے آ کر کورونا کو کنٹرول کرنے کے طریقے بتا رہے ہیں۔ کورونا کے انسداد اور طبی سہولیات کے متعلق شہباز شریف کی درپردہ کارکردگی نے بااختیار قوتوں کو آمادہ کر لیا ہے کہ شہباز شریف کو ایک بار پھر خدمت کا موقع دیا جائے۔ شہباز شریف نے لاہور کے نواحی جس علاقے کا دو روز پہلے دورہ کیا اسے نیا میدان بتایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگی دماغ سوچ رہا ہے کہ پنجاب پر قبضے کا ماحول بن رہا ہے۔ ایک دوسرا بیانیہ ہے۔ اس بیانیے کے اہم کردار سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی ہیں۔ پرویز الٰہی کے سینے میں قومی سیاست کے کئی راز ہیں۔ پنجاب میں ان کی سیاسی دانشمندی، معاملہ فہمی اور مضبوط رابطوں کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاور بروکرز کیا چاہتے ہیں۔ کس تبدیلی کے لیے نئی صف بندی کیسے کی جائے اور کن شخصیات کو حریف اور حلیف کے طور پر منتخب کیا جائے اس کے بارے میں پرویز الٰہی سے بہتر کون جانتا ہے۔ نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو صف بندی چودھری برادران سے کرائی گئی۔ شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے تو خود وزارت اعلیٰ کا امیدوار ہونے کے باوجود چودھری برادران نے ان کی حمایت میں صف بندی کی۔ پرویز مشرف کا ایف سی کالج گروپ چودھری برادران کے بغیر مکمل نہیں ہوا۔ آصف علی زرداری کو ضرورت پڑی تو اپنے کٹر نظریاتی مخالف چودھری پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم بنا دیا۔چودھری پرویز الٰہی کہنے کو سپیکر صوبائی اسمبلی ہیں مگر کئی معاملات میں ان کی رائے حتمی قرار پاتی ہے۔ ایسے میں ڈیڑھ سال قید رہنے والے خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق چودھری پرویز الٰہی سے 20سال بعد تین گھنٹے ملاقات کریں تو اسے خیر سگالی ملاقات کے کھاتے میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے۔ تین روز ہوئے رانا ثناء اللہ اور عبدالعلیم خان کے مابین رابطہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ عبدالعلیم خان نے خود رانا ثنا سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔علیم خان نے اپنے ٹوئٹر اکائونٹ سے اس خبر کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’مجھے یقین نہیں کہ رانا ثناء اللہ نے اس طرح کا کوئی بیان دیا ہو گا۔ تحریک انصاف کا حصہ ہوں اور ہمیشہ رہوں گا‘‘ 9 اپریل کو دوسرے ٹویٹ میں علیم خان نے کہاکہ اس طرح کی خبروں کے پیچھے بعض لوگوں کے مخصوص عزائم ہوتے ہیں۔ پھر بھی افواہیں خبر کی شکل میں ڈھل رہی ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ علیم خان نے کچھ معاملات پر رانا ثنا ء سے تبادلہ خیال اور مدد کی درخواست کی جس پر رانا ثنا ء نے شہباز شریف سے رابطہ کیا۔ یہی خبر بتاتی ہے کہ شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ کو مزید رابطے سے روک دیا ہے۔ ان دونوں ملاقاتوں کی اطلاع مسلم لیگ ن کے کیمپ سے آئی ہے۔ دونوں ملاقاتوں کے بعد جوتاثر پیدا ہوا اس کا لب لباب یہی ہے کہ نئی صف بندی میں ن لیگی اراکین کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ سیاسی حرکیات اور وراثتی جماعتوں کی قیادت کا نفسیاتی تجزیہ بتاتا ہے کہ اقتدار سے دور ہونے کی صورت میں وہ ایک تصوراتی نظام حکومت ترتیب دے لیتے ہیں۔ کچھ سابق ساتھی اور ماتحت رہنے والے سرکاری افسران ان تصورات میں رنگ بھرنے کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ محروم اقتدار کو بتایا جاتا ہے کہ صاحب اقتدار کو فلاں سمری کی سمجھ نہیں آئی۔ فلاں بندے کو آرڈر کرنا تھے صاحب نے دوسرے کو ہدایات جاری کر دیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ آپ کے فلاں منصوبے کے فنڈز روک رہے ہیں۔ آپ کے خلاف اب فلاں گھپلے کی تحقیقات کا کہا جا رہا ہے۔ آپ کے فلاں وفادار کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ محروم اقتدار یہ سب سنتا ہے اور اپنی تھیلی کے چٹے بٹے نکال کر انہیں احکامات جاری کرتا ہے۔ کسی نے شہباز شریف کی حالیہ دنوں شائع ہونے والی تصاویر اور مصروفیات کا تجزیہ کیا ہو تو معلوم ہو گا وہ تو عثمان بزدار سے بھی زیادہ کام کر رہے ہیں۔ سنجیدہ بات یہ ہے کہ شہباز شریف اپنا کام واقعی سنجیدگی سے کر رہے ہیں۔ وہ ہر روز کچھ اہم شخصیات سے ہیلو ہائے کرنے کے لیے فون ملاتے ہیں۔ کسی دوسرے ذی روح سے خالی کمرے کو دفتر بنا کر دکھاتے ہیں اور پھر مختلف مقامات پر سرکاری محکموں اور افسران کی کوتاہی کا نوٹس لیتے رہتے ہیں۔ وہ دلجمعی سے ان افراد کی وفاداری پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو تحریک انصاف میں ہیں مگر انہیں بعض معاملات میں شکایت پیدا ہو رہی ہے۔ فزکس کی ایک اصطلاح ہے، خلا۔ یار لوگوں نے اسے مرنے والوں کے ساتھ جوڑد یا۔ اب یہ فزکس سے زیادہ مرگیات کا حصہ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ مرنے والا کون ہے۔ وہ جو رب کی بنائی فطرت کے سامنے مزاحمت ترک کر دیتا ہے۔ سیاست میں زندگی اور موت کا تصور الگ ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے کئی ناگزیر گمنام ہوتے دیکھے گئے۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے یکطرفہ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ گلاب کو بھی کانٹے لگائے گئے۔ مٹھاس کو بھی تلخی سے مقابلہ ہے۔ جنون ہوش سے لڑ رہا ہے۔ دن اور رات ایک دوسرے پر ہزاروں برسوں سے حملہ آور ہیں۔ نہ گلاب کانٹا بنا۔ نہ تلخی مٹھائی میں بدلی۔ ہوش اور جنون الگ الگ ہی رہے۔ رات اور دن کے درمیان ایک فاصلہ، ایک خلا ہر حال میں رہا۔ کیا کوئی اس گمان میں ہے کہ دونوں اپوزیشن جماعتوں کی بدانتظامی اور ان کے قائدین کی کرپشن کے ردعمل میں صرف پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے۔ نہیں، پورا ریاستی ڈھانچہ اٹھایا گیا ہے۔ اس نظام کو چیلنج کرنے کے لیے بہت بڑا ریورس گیئر درکار ہے۔ یکطرفہ بیانیہ کام نہیں کرے گا۔ یہ کھچڑی لندن کے بیماروں کو نصیب نہیں ہو گی کچھ نئے ضرورت مند ہیں ان کو مٹھی بھر مل سکتی ہے۔