کشور ناہید کی خوبی یہ ہے کہ وہ عنفوانِ شباب سے سچ بولتی اور بغیر کسی لگی لپٹی اپنی بات کہتی چلی آرہی ہے۔ وہ اس زمانے میں بھی سچ بول کر غیرمقبول ہونے کی پوری کوشش کرتی تھی، جب اشفاق احمد صاحب جیسا شخص مردوں کی نفسیات بیان کرتے ہوئے کہتا تھا کہ ’’ہمیں تویونیورسٹی میں وہی لڑکی اچھی لگتی تھی جو جھوٹ خوبصورتی سے بولے‘‘۔ اچھا لگنا اور اچھا کہلانا کبھی کشور ناہید کا مسٔلہ نہیں رہا۔ حقیقت حال بیان کرنا اور دوٹوک بیان کرنا اس کا خاصہ بھی ہے اور المیہ بھی۔ آج جن شاعروں کی اولادیں وزارتوںکی مکین، سفارتوں کی امین اور کارپوریٹ کمپنیوں کے پے رول پر ہوتے ہوئے، اپنے بزرگوں کی نظمیں سنا کر ان کی جدوجہد کے صلے میں موروثی داد وصول کر رہے ہیں، کشور ان شعراء کی ہم عصر تھی، لیکن سچ کہوں تو دلیری اور حق گوئی میں یہ بڑے بڑے عظیم ’’ادبی دیوقامت لوگ‘‘ اس کا ہم پلہ بھی نہیں تھے۔ وہ اپنے زمانے کے شرفاء کی نظروں میں گستاخ اور مردود، اپنے ہم عصر شاعروں کے لئے بدترین غیبت اور سکینڈل گھڑنے کے لئے آسان شکار، طاقتور طبقوں کے لئے باغی اور عام آدمی کے لئے ایک عام سی شکل و صورت والی عورت تھی جو شاعری کرتی تھی، مگر اس کی شاعری کا سچ بہت کڑوا تھا۔ دامانِ پاکبازیٔ یو سف کی خیر ہو اب کہ گرفتِ دستِ زلیخا کچھ اور ہے لوگ اس زمانے میں بھی کشور ناہید کی اس تشبیہ و استعارے’’گرفتِ دستِ زلیخا‘‘ کو بے باکی اور بے خوفی سے تعبیر کرتے تھے۔ لیکن وہ لوگوں سے بے پرواہ، وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہوئی عورت کی تصویر اپنی شاعری میں تجسیم کرتی رہی۔اس کی جدوجہد ایک ایسی بے باک عورت سے عبارت تھی کہ جو ’’بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے‘’ والی خو اور سرشت رکھتی ہو۔لیکن آج کی تیز رفتار ترقی، معاشرتی زوال، اخلاقی انحطاط اور خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی جنسیت سے متاثر خواتین کے المیے نے کشور ناہید کو بھی ماتم کرنے پر مجبور کردیاہے۔ اس کی سچ بولنے کی عادت نے اس عمر میں بھی اس کے ہاتھ میں شمشیرِ برہنہ پکڑادی ہے۔ وہ کالم میں درج ذیل یہ لائنیں لکھتے ہوئے کس کرب، عذاب اور اذیت سے گذری ہوگی، ہر لکھنے والا اس کا اندازہ کرسکتا ہے۔ کشور نے لکھا ’’ہمارے زیادہ تر بچے سندھ کی آرزو کی طرح شادی کے خواب دیکھتے ہوئے بھاڑ میں چلے جاتے ہیں۔وہ لڑکی جسے مبینہ طور پر زبردستی مسلمان کیا گیا، جس کی عمر 14سال ہے، وہ کہہ رہی ہے میں اٹھارہ سال کی ہوں، مجھے اپنے شوہر کے ساتھ جانے دیا جائے۔ یہ ہے نتیجہ فیس بک، ٹک ٹاک اور دکھائے جانے والے تھرڈ کلاس ڈراموں کا۔ پطرس نے تو کہا تھا، مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ اور میں کہہ رہی ہوں مجھے نہیں ’’سارے پاکستان کو میڈیا سے بچاؤ‘‘۔‘‘ یہ ہے وہ سچ جو کسی بڑے سے بڑے جغادری حقوقِ نسواں کے علمبردار کو بھی بولنا نصیب نہیں ہوا۔ اس لئے کہ یہ سب کے سب حقوقِ نسواں کے پرچم بردار میڈیا اور عدالتوں کی جنگ جیت کر جھنڈے گاڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس طوفان سے بے خبر ہیں جس کی جانب کشور ناہید نے اشارہ کیا ہے۔ یہ طوفان ہم سب کے گھروں تک آپہنچا ہے اور وہ دن دور نہیں، کہ آج ’’آرزو‘‘ کے وکیل جو اسے دارالامان بھجوا کر خوشی خوشی میڈیا کے سامنے فتح کے پرچم بلند کر رہے ہیں، ایک دن میڈیا کے تلذذ اور زہرناک سحر میں ڈوبی ان کی بیٹی یا بہن اسی المیے سے گذر رہی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہر روز ہو رہا ہے اور بڑے بڑے عزت دار لوگ تکیوں میں سر دیئے راتیں رو رو کر گذارتے ہیں اورخوفِ رسوائی سے بات نہیں کرپاتے۔ دوسال قبل ’’وومن مارچ‘‘پر جب اس فیس بک، ٹک ٹاک اور گھٹیا ڈراموں سے متاثرہ بچیوں نے کشور ناہید پر طنز اور طعن کے تیر برسانے شروع کئے تو مجھے یوں لگا جیسے بڑے مذہبی سکالروں اور معاشرتی اقدار کے ٹھیکیداروں کی جگہ وہ اکیلی عورت مصلوب کیے جارہی ہو۔ اس نے کبھی زندگی میں سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ’’حقوقِ نسواں‘‘ کا وہ قافلہ جو کبھی اس کے گھر سے برآمد ہوا تھا، اس کے مطالبات، جسم کی لذت، اس کی آزادی اور آوارگی کی گھٹیا سطح تک گر جائیں گے۔ جو پودا آپ نے اپنے ہاتھ سے خود لگایا ہو، اس پر اُگنے والے کانٹے اگر آپ کا ہی دامن تار تار کردیں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ایسا ہی دکھ کسی صاحبِ اولاد باپ یا ماںکو ہوتا ہے، جب محبتوں سے پالی ہوئی ان کی اولادیں ان کے سامنے فیس بک، ٹک ٹاک اور گھٹیا ڈراموں کے ڈائیلاگ اور کہانیاں دہرا کر بغاوت کا اعلان کرتی ہیں۔ مجھے اس دُکھ کا اس لئے بھی اندازہ ہے کہ میں نے کشور ناہید کو ’’تحریک نسواں‘‘ کے پودے کو اپنا خون دیتے، مدتوں نگر نگر دربدرہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسی خاتون کے سامنے جب ہاورڈ ، کیمبرج یا آکسفورڈ میں امیر باپ کے پیسوں سے تعلیم حاصل کرنے والی اور ناونعم میں پلی انگلش میڈیم سکولوں کی راہداریوں میں جدید دنیا کی چربہ اخلاقیات استعمال کرنے والی بچیاں، تکلیف دہ حد تک فضول اور بے بنیاد الزامات لگائیں تو دکھ تو ہوتا ہے۔ کشور کا المیہ صرف یہ بگڑی ہوئی نسل اور بے منزل، گم کردہ راہ بچیاں نہیں بلکہ بڑے بڑے ناموں کی اولادیں بھی ہیں جو اپنے باپوں، دادوں اور نانوں کے نام کو چند سکے کمانے، کچھ دیر مشہور ہونے اور کارپوریٹ دنیا کی بکاؤ اخلاقیات کو تحفظ دینے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اقبال کا نواسہ اسے بارود خانے کی حویلی کی رنگارنگی میں لے گیا ہے اور فیض کے وارثوں نے اسے کارپوریٹ سرمائے کی دکان پر بیچ دیاہے،وہ سرمایہ دارانہ نظام جس کے خلاف وہ ساری عمر لکھتا رہا ۔ فراز کو انقلابی تو یار لوگوں نے اب بنا دیا ہے ورنہ شبلی اور غزالی سے بہتر کون جانتا ہے۔ کشور ناہید سے میں اتنا ہی اختلاف کرتا ہوں جتنا اختلاف کرنے کا حق ہے۔ مجھے اس کے نظریے، تصورِ حیات اور انقلاب سے کبھی اتفاق نہیں رہا، لیکن میں اس کی قوتِ کردار کا مداح رہا ہوں۔ یہ قوتِ کردار ہی ہے جو لاتعداد جبران ناصروں اور ضرار کھوڑوں سے اسے بلند کردیتی ہے۔ جو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ بیٹیوں کے معاملے میں جنگیں نہیں جیتی جاتیں۔ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ انہیں مغوی کی قید سے آزادی کی بجائے اس بے ہنگم، غلیظ اور خطرناک میڈیا سے آزاد کروانے کی ضرورت ہے۔ جو ’’آرزو‘‘ آج دارلامان پہنچی ہے، وہ تین سال انتظار کرلے گی، لیکن اس کی نفرت کے سزاوار وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اس کی جذباتی کیفیت کا ادراک کیا اور نہ ہی میڈیا سے متاثررومانی تصورات کا پاس کیا۔ ان کے نزدیک’’ آرزو‘‘ صرف اور صرف ایک مغویہ تھی۔۔ ایک ہائی کورٹ کے وکیل کے لئے جیتنے والا جذباتی کیس، ایک ٹی وی اینکر کے لئے یک کامیاب شو کا مواد اور ایک سیاست دان کے لئے عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ایک نعرہ مستانہ۔ کوئی اس آرزو کے اس کربناک ماحول میں نہیں جھانکتا جسے میڈیا کی لذت بھری غلیظ چکاچوند دنیا نے اغوا کررکھا ہے۔ کشور ناہید کی آرزو بھی مغویہ ہے ،لیکن اسے اغوا کرنے والا مجرم میڈیا ہے۔