ایک ولی، ایک درویش ایک مرد حر، ایک عالم دینی علوم کا، ایک سکالر سماجیات کا، ایک مرد حق آگاہ و حق گو، ایک مجاہد صخریٰ صفت، کتنے ہی افراد مل کر ایک سید منور حسن بنے جو کورونا کی خون آشام بلا نگل گئی۔ مولانا مودودی مرحوم کے تربیت یافتہ افراد اب شاید ہی جماعت میں بچے ہوں۔ خاص طور سے کراچی سے تو وہ ساری کی ساری پنیری دست اجل لے اڑی جو مولانا نے اپنے ہاتھ سے لگائی تھی۔ کراچی کبھی جماعت اسلامی کا اور دینی طاقتوں کا گڑھ تھا لیکن جو مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کی نظر میں آ گیا۔ مرد مومن مرد حق کا قومی مفاد یہ تھا کہ یہ شہر سندھی مہاجر جنگ کا پانی پت بنے۔ انہوں نے ریاستی وسائل سے یہاں لسانی نفرتوں کی آبیاری کی اور جماعت اسلامی کو شہر سے اکھاڑ پھینکا۔ سید منور حسن کی صاحبزادی کی شادی ہوئی، بہت سے تحفے ملے، کئی لاکھ روپے کی مالیت کے، منور حسن نے بیٹی سے کہا، یہ تحفے منور حسن کی بیٹی کو نہیں ملے، یہ تو جماعت اسلامی کے امیر کی صاحبزادی کو ملے ہیں، چنانچہ یہ تحائف تمام کے تمام اٹھا کر جماعت کے بیت المال میں جمع کرا دیئے گئے۔ منور حسن آئین اور جمہوریت کے حوالے سے میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کے برعکس مولانا مودودی کی سوچ پر عمل پیرا رہے؛چنانچہ محب الوطن حلقوں میں ناپسندیدہ تصور کیے گئے۔ انہوں نے کسی یحییٰ خان، ضیاء الحق خان یا مشرف خان کو اپنا آئیڈیل نہیں سمجھا۔ پھر ایک موقع وہ آیا جب محب الوطن حلقوں نے انہیں غدار قرار دے دیا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، شہید وہ ہے جو اللہ کی راہ میں جان دے، جو امریکہ کی سربلندی کے لیے لڑے میں اسے شہید نہیں کہہ سکتا۔ محب الوطن ’’اسلام پسند‘‘ دانشور چڑھ دوڑے۔ ٹی وی پر ان کے خلاف پروگرام کیے گئے، اخبارات میں ’’مقالات‘‘ لکھے گئے، ان سے معافی کے مطالبات کیے گئے۔ وہ جھکے نہ ڈرے، دبے نہ بکے؛چنانچہ ’’اسلامی دانشور‘‘ آخر وقت تک ان کے خلاف لکھتے، ان کا مضحکہ اڑاتے رہے اور بے شک، انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ ٭٭٭٭٭ قائد تبدیلی مآب نے ایوان سے خطاب فرمایا، طویل عرصے بعد، زہے عزوشرف، ایک سے بڑھ کر ایک صداقت آشکار کی، ایک سے بڑھ کر ایک سچائی کے رخ سے نقاب اٹھایا۔ فرمایا: دوسال پہلے جب میں نے ’’مسند خلافت‘‘ سنبھالی تو مہنگائی کا عروج تھا، غریبوں کا برا حال تھا۔ بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، مہنگائی کا سچ مچ طوفان تھا۔ آٹا دیکھو تو ساڑھے سات سو روپے کا تھیلا۔ غضب خدا کا۔ پٹرول 70روپے لیٹر، اف توبہ۔ چینی 50روپے کلو غضب خدا کا۔ ہر طرف دہائی تھی دہائی۔ پھر اوپر والوں کی رحمت کو جوش آیا آپ مسند خلافت پر تشریف آرا ہوئے۔ بلائیں ٹل گئیں۔ ’’سستائی‘‘ کی وہ برسات ہوئی کہ سارے تھل جل ہو گئے، یہاں تک کہ ڈوب گئے مے خانے بھی۔ ہمیں یاد ہے سب ذرا ذرا، شریفوں کی مہنگائی کے خلاف علم جہاد بھی آپ ہی نے بلند کیا تھا۔ ہمیں یاد ہے سب ذرا ذرا جب آپ نے 8روپے یونٹ کی کمر توڑ قیمت پر للکارا تھا اور فرمایا تھا، اتنی مہنگی بجلی، اتنا مہنگا پٹرول، حکومت عوام کا پیسہ چوری کر رہی ہے، سارا چوری کا مال شریفوں کی جیب میں جا رہا ہے۔ بہر حال، اب چوری کا پیسہ جیبوں میں ڈالنے والے تو گئے، اب تو آپ ہیں لہریں تھیں اور بحریں ہیں۔ ٭٭٭٭٭ دو مہینے پہلے اس کالم میں کی گئی پیش گوئی غلط نکلی۔ لکھا تھا کہ حکومت طے شدہ مفاہمت کے تحت ڈالر کے بجٹ تک 170روپے کا کر دے گی۔ ایسا نہیں ہوا، ڈالر 168روپے تک آکر رک گیا۔ الحمدللہ۔ ٭٭٭٭٭ طے شدہ مفاہمت البتہ چینی، آٹے، دوائوں اور پٹرول کی مد میں خوب کامیاب رہی۔ سستے پٹرول کے جہاز سمندروں میں کھڑے تھے، اشارہ ملا، بس کھڑے رہنا، حکومتی تیل 33فیصد مہنگا کرنے والی ہے۔ اور پھر راتوں رات چند پیاروں نے 300ارب روپے کما لیے۔ اچھوں کا ساتھ دینے والوں کے لیے قدرت اسی طرح چھپڑ پھاڑتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایوان میں خطاب کرتے ہوئے دادا جی کے پوتے نے فرمایا، سی پیک دادا جی کا وژن تھا۔ یار لوگوں کو تو بہانہ چاہئے، اس فقرے کو نشانے پر رکھ لیا۔ حالانکہ پوتے جی کو ،مغالطہ تھا، اور کچھ نہیں تھا۔ پوتے میاں سیٹو سینٹو اور سی پیک میں فرق نہیں کر سکے۔ بس اتنی سی بات تھی۔ دادا جی کا یہ اکیلا کارنامہ نہیں تھا اور بھی بہت کارہائے نمایاں تاریخ کی کتاب میں سونے کے حروف سے لکھے ہیں۔ پاکستان 47ء میں آزد ہوا، دادا جی نے گیارہ برس بعد یہ آزادی رول بیک کر دی۔ پاکستان کو ایشیا کا پور ٹوریکو بنا دیا۔ یوں وہ پہلے محب وطن قرار پائے۔ عمران سرکار غریب سے چھین کر امیر کو دے رہی ہے۔ یہ سنہری ریت بھی دادا جی کی بنا کردہ تھی۔ کروڑوں پاکستانیوں کو کنگال کر کے 20گھرانے خوشحال کیے۔ ہمیں گھرانوں کا بیسواں گھرانہ خود ان کا اپنا تھا۔ آہ… وہ گندھارا کی سلطنت وہ تو مادر ملت نے عوام کو بدظن کر کے فضا مکدر کردی ورنہ آنجہانی ٹیکسلا کی سلطنت بھی بنا کر ہی چھوڑتے۔ پوتا جی جس کی کابینہ میں آج کل وزیر ہیں، وہ یونہی اٹھتے بیٹھتے دادا جی کو یاد نہیں کرتا۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعلیٰ پنجاب کی خوفناک دھمکی سے دل لرز کر رہ گئے۔ فرمایا: خدمت کے سفر کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ یا اللہ رحم!