بزرگ ادیب وشاعر ولی محمد سیال کاکڑبھی ہم کو الوداع کہہ گئے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ تقسیم ہند سے بارہ سال قبل سرانان( ضلع پشین) میں آنکھ کھولنے والے پشتو ادبیات کے اس درویش صفت خادم زندگی کی کل چھیاسی بہاریں دیکھے کر امر ہوگئے۔سیال کاکڑ نے تعلیم کی ابتداء سرانان (پشین ) کے تعلیمی اداروں سے کی تاہم مزید تعلیم کے حصول کیلئے انہوں نے پشاور،فیصل آباد اور لاہور کے تعلیمی اداروں کارخ کیا۔ستر کی دہائی کے ابتدائی سال تھے کہ وہ فارغ التحصیل ہوئے اور درس وتدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے ۔ بطور استاد انہوں نے بلوچستان کے مختلف کالجوں میں پڑھایا اور بعد میں یونیورسٹی میں استاد بھی رہے ۔غالباً پچھلی صدی کا آخری سال تھا کہ وہ درسی شعبے سے ریٹائر ہوگئے۔ مرحوم سیال کاکڑجنوبی پشتونخوا کی ادبی دنیا کے اکابرین میں ایک غیر معمولی ادیب اور شاعر تھے۔پشتو ادب کیلئے اپنی بے پناہ خدمات کی بناء پر انہوں دیورنڈ لائن کے دونوں اطراف اپنے عقیدت مند پیدا کیے ۔باالخصوص پشتو میں وہ ایک مستند اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ہمارے دوست شاعر جناب نعیم آزاد کے مطابق سیال کاکڑ کو اپنی مادری زبان کے علاوہ پانچ دیگر زبانوں اردو، انگریزی، فارسی ، براہوی اور پنجابی پر بھی دسترس حاصل تھا تاہم تخلیق کیلئے انہوں نے اپنے ہی زبان کوکافی سمجھا۔پشتو پر ان کا ابتدائی کام ’’ غاڑی‘‘کے نام سے ستر کی دہائی میں شائع ہوا۔انہوں نے مختلف ادوار میں تخلیق ہونے والے قدیم اور نایابــ’’ غاڑی ‘‘سے بھی لوگوں کو آشناکیا۔مذکورہ صنف ہی میں ’کاکڑئی اور پخوانئی غاڑی ‘‘کے نام سے دو اور کتابیں بھی لکھ ڈالیں۔یاد رہے کہ’’ کاکڑئی غاڑی ‘‘ کی اصل جائے تخلیق ژوب ، لورالائی اورقلعہ سیف اللہ کا علاقہ ہے تاہم مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس منظوم فولکلورک صنف کودوسرے علاقوں میں بھی پذیرائی ملی ۔ کمینوکیشن کے اس ڈیجیٹل دور میں تو اس پر مزید کام ہوا ہے اور یہ اتنی پذیرائی ملی کہ پشتو کے اکثر موسیقاراس کو بڑے شوق سے مختلف طرزوں میں کمپوز کرتے ہیں۔ ٹپہ کے بعد پشتو عوامی شاعری میں ’’کاکڑئی غاڑی‘‘ وہ شاہکار صنف ہے جس میںرومانوی، تاریخی، مذہبی، سماجی اور رزمیہ باتیں محض سولہ سیلاب کے دو مختصر مصرعوں میں بہت عمدہ پیرائے میں بیان کی جاسکتیں ہے۔ سیال کاکڑ نے پشتو فولکلور کے ایک اور صنف ’’انگئی یاچغیان ــ‘‘کے اوپر بھی کافی کام کیا ہے ۔ چغیان بنیادی طور پر عورتوں کی تخلیق کردہ عوامی شاعری ہے جسے دلہن خود بھی اور اپنی سہیلیوں سمیت بھی عین رخصتی کے موقع پر آہوں اور سسکیوں کا تڑکا لگا کر گاتی ہیں۔اس صنف کا تعلق بھی جنوبی پختونخوا سے ہے جو مرحوم سیال کاکڑ اور مرحوم ابوالخیر زلاند جیسے لکھاریوں کی کوششوں سے پشتو فولکلورمیں کافی مقبول ہوچکی ہے۔کاکڑئی غاڑی اور انگئی پر کام کرنے کے علاوہ فولکلورہی کے میدان میں انہوں نے ’’د اتن نارے ، فولکلوری سوغات، فولکلوری طب، دشادئی بدلی، متلونہ، پشتو نکلونہ، دآزادئی غاڑی اور فولکلوری جواہر نامی کتابیں ان کی تخلیقات اور تالیفات میں شامل ہیں۔ د کوچنیانو ادب (بچوں کا ادب ) کے حوالے سے بھی سیال کاکڑ کی دو کتابیں طبع ہوئی ہیںجس میں بچوں کے فولکلورک گیت شامل ہیں۔ ایک اچھے فولکلورسٹ اور محقق کے ساتھ ساتھ سیال کاکڑتذکرہ نگاربھی تھے ۔’’د کسے د لمن پشتانہ لیکوال (کوہِ قیسا کے دامن کے پشتون لکھاری) اور ’’پشتو او پشتانہ پہ سوہیلی پشتونخوا کی (جنوبی پشتونخوامیں پشتو اور پشتون )کے نام سے دو ضخیم تذکروں کے علاوہ انہوں نے ’’ مختلف شعراء اور ادیبوں کی تصاویرپر مشتمل ایک تصویری تذکرہ اورایک منظوم تذکرہ بھی تالیف کیاہے۔لسانیات اور صحافت پر کام کے حوالے سے ان کی کئی کتابیں شائع ہوئیں ہیں جن میں زبان کے حوالے سے ترینو، پشتو کے ونیچی لہجے پر کی گئی تحقیقی کتاب، کاکڑء غاڑی کے لہجے پر تحقیقی کام جبکہ صحافت کے بارے میں انہوں نے ’’ دکسے دلمنی پشتو ژورنالیزم (قیسا غر کے دامن میں پلنے والی پشتو صحافت جیسی کتابیں لکھی ہیں۔چونکہ ہم نے اس مضمون کے شروع میں بھی ذکر کیاتھا کہ سیال کاکڑ کو پشتو کے علاوہ دیگر کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا یوں کبھی کبھار وہ ان زبانوں باالخصوص فارسی اور اردومیں بھی لکھتے جن میں اردو کے مضامین کے اور فارسی زبان میں لکھے گئے دو مقالے’’ گنجینہ ادب اور خزینہ دانش ‘‘ قابل ذکر ہیں۔سیال کاکڑ شاعر بھی تھے اور مشاعرے میں شعر پڑھنے کا ایک مخصوص انداز رکھتے تھے ۔ گرانی ملغلری، پشتنی جام، ملی دردونہ، غورزنگ، سنگر اور غور انزور اُن کے چھ شعری مجموعے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پشتو ادبیات کے ہمارے اس مایہ ناز استاد نے اپنی زندگی میں تریالیس کے قریب کتابیں تصنیف اور تالیف کیںجبکہ اپنی غیر مطبوعہ کام کے بارے میں وہ خود ایک جگہ رقم طراز ہیں ’’ اگر زندگی نے وفا کی تو میرا ارادہ ہے کہ اپنی غیرمطبوعہ کتابوں کو بھی شائع کرکے ادبی دنیا اور ادبی مذاق رکھنے والوں کے حوالے کردوںــ‘‘۔اپنے بے پناہ ادبی خدمات کی بنیاد پر انہیں نہ صرف بلوچستان کی صوبائی حکومت نے متعدد مرتبہ ایوارڈز سے نوازا بلکہ افغانستان کے سابق صدر محمد اشرف غنی نے بھی چند سال پہلے انہیں’’سید جمال الدین افغانی ‘‘ کے نام سے قومی ایوارڈ سے نوازا تھا ۔ان کی آخری کتاب ــ’’ ملی انزور‘‘ کے نام پانچ سال پیشتر منظرعام پر آئی۔مرحوم سیال کاکڑ کی مذکورہ سبھی تصنیفات اور تالیفات اس دور میں شائع ہوئیں ہیں جب کمپوٹر سے کتابت اور انٹرنیٹ جیسی سہل ترین کمیونیکیشن کی سہولت تو درکنار بلکہ ٹیلی فون اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا بھی شدید فقدان تھا۔ گویا کہ اس زمانے میں کسی لکھاری کیلئے تخلیق اور تحقیق ایک مشکل ترین کام تھا ۔ یہ سیال کاکڑ ہی تھے جنہوں نے ان سبھی مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر چالیس کے قریب تخلیقی اورتحقیقی کتابیں اپنے قارئین کیلئے پیش کیں۔ پشتوالفاظ) کو تلاش کرنے کیلئے شیرانی کے دیہاتیوں سے ملتے تھے ۔ویسے تو رواں سال سیال کاکڑ کی طبعی موت کا سال ہے لیکن حقیقت میں ان کو معنوی موت نے اس وقت اپنی تحویل میں لیاتھا جب دوہزار سولہ میںان کا جوان سال بیٹے ایمل خان کوئٹہ میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں شہید ہوکر ان کو نہ مندمل ہونے والا داغ دے گئے۔تبھی سے ان کے اعصاب نے جواب دے دیاتھا اور مسلسل صاحب ِ فراش تھے ۔ صاحب ِ فراش بھی ایسے کہ اُن کے قریبی دوست بھی بہت شاذاور بڑی مشکل سے ان کی عیادت کرپاتے تھے ۔ان کی وفات سے نہ صرف پشتو ادب کو بڑا نقصان ہوا بلکہ پشتو شعراء اور ادباء کے حلقے بھی ایک نہایت مشفق، منکسرالمزاج اور حساس طبع استاد سے محروم ہوا۔ اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے لواحقین اور جملہ احباب کو صبر وتحمل عطا کرے۔