بنوں ڈویژن میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، جہاں بچوں میں پولیو کا مرض خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ گزشتہ آٹھ مہینوں میں یہاں پولیو سے متاثر اکتیس بچوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میںاس سال پولیو کے چوالیس مریض بچے سامنے آچکے ہیں۔ اس کے برعکس گزشتہ پُورے سال میں ملک بھر میں ان مریضوں کی تعداد صرف بارہ تھی۔ پولیو وائرس سے پھیلنے والا وبائی مرض ہے۔ یہ صرف بنوں تک محدود نہیں رہے گا۔ اگر بنوں میں اس کی بیخ کنی نہ کی گئی تو یہ اس سے متصل علاقوں سے ہوتا ہُوا پورے ملک میں وبائی شکل اختیار کرجائے گا کیونکہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے اُن دو ملکوں میں سے ایک ہے جہاں پولیو وائرس موجود ہے۔ باقی ساری دنیا اس اذیت سے جان چھڑا چُکی۔ دوسرا ملک افغانستان ہے۔ پولیو کا مرض عام طور سے پانچ سال سے چھوٹے بچوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اس کا وائرس دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر حملہ کرتا ہے اور اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے جس سے جسم فالج زدہ‘ معذور ہوجاتا ہے یا موت واقع ہوجاتی ہے۔ ایک دفعہ بیماری ہوجائے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اس سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ چھوٹی عمر کے بچوں کو اس سے بچاو کے حفاظتی قطرے پلائے جائیں جنہیں ویکسی نیشن کہا جاتا ہے۔ ان قطروں سے بچوں میں وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔ وقفے وقفے سے بار بار پینے سے مدافعت بڑھتی جاتی ہے۔ ساری دنیا نے ویکسی نیشن سے فائدہ اٹھایا اور پولیو سے پاک ہوگئے۔ 2009 تک بھارت پولیو کا سب سے بڑا گھر تھا جہاں دنیا کے تمام مریضوں کا ساٹھ فیصد ہواکرتے تھے لیکن کامیاب ویکسی نیشن مہم کی وجہ سے پانچ سال پہلے بھارت اس مرض سے نجات پانے میں کامیاب ہوگیا۔ بنگلہ دیش کو اس وائرس اور مرض کا قصّہ تمام کیے ہوئے تیرہ سال ہوگئے۔ نائجیریا میں شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے ویکسی نیشن میں رکاوٹ ڈالے رکھی لیکن وہاں بھی سرکاری کوششوں کے نتیجہ میں تین سال پہلے پولیو ختم ہوگیا۔ ہمارے ملک میں پولیو کے حفاظتی قطروں کے خلاف ایسا منظم منفی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ بہت سے سادہ لوگ ان جھوٹی‘ بے بنیاد باتوں میں آگئے۔ دیہاتی اور قبائلی پس منظر رکھنے والے لوگ اس گمراہ کن بیانیہ سے زیادہ متاثر ہوئے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو مفت حفاظتی قطرے پلانے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ بعض صورتوں میں ویکسی نیشن کرنے والے عملہ کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ خیبر پختونخواہ میں بچوں کے ماہر ڈاکٹرگوہر رحمان کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ بعض تعلیم یافتہ افراد‘ کالج کے اساتذہ‘ میڈیکل ڈاکٹر بھی ویکسی نیشن کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں، وہ پولیو قطروں کے بارے میں اُن سے پوچھتے ہیں کہ یہ محفوظ ہیں یا نہیں۔ لوگوں سے ڈر کر کئی مقامات پر عملہ نے سیاہی لوگوں کو دے دی کہ وہ اپنے بچوں کی انگلیوں پر قطرے پلائے بغیر خود ہی نشان لگالیں تاکہ نگرانی کرنے والے آئیں تو یہ پتہ چلے کہ بچوں کی ویکسی نیشن ہوچکی۔ یوں ویکسی نیشن کے بارے میں جھوٹے اعداد وشمار وجود میں آگئے جنہوں نے حفاظتی مہم کو نقصان پہنچایا۔ مشکل یہ ہے کہ حفاظتی قطرے پلانے والے کارکن اتنے اہل نہیں ہوتے کہ وہ لوگوں کے مختلف سوالوں کے اطمینان بخش جواب دے سکیں۔ ان کارکنوں کی تربیت بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ شکوک کا شکار لوگوں کو مطمئن کرسکیں۔ حکومت ایسے پمفلٹ تیار کرے جن میں عام طور سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات دیے جائیں۔ یہ عملہ جہاں ویکسی نیشن کے قطرے پلائے وہاں آگہی پر مبنی لٹریچر بھی تقسیم کرتا جائے۔ گو ناخواندہ لوگ اس تحریری مواد سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے لیکن کم سے کم پڑھے لکھے لوگوں کے تحفظات تو دُور ہوں گے۔ پولیو کے خاتمہ میں ہمیں جن دشواریوں کا سامنا ہے ان سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری ریاست نے خواندگی‘ جدید تعلیم اور سائنسی طرز فکر کے فروغ کو نظر انداز نہ کیا ہوتا تو ہم آج پولیو زدہ ملک نہ ہوتے۔ موجودہ بحران سے نپٹنے کیلیے حکومت کو چاہیے کہ وہ خصوصاً خیبر پختونخواہ میںبچوں کے ماہر ڈاکٹروں کو پولیو کے خلاف مہم کا حصہ بنائے۔ لوگ قطرے پلانے والے کارکنوں کی بجائے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی بات پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ویکسی نیشن مہم میں آگہی پھیلانے میں رضاکار طالبعلموں اور نوجوانوں پر مشتمل دو لاکھ افراد نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہم بھی یہ کامیاب ماڈل اختیار کرسکتے ہیں۔ بھارت میں اُتر پردیش اور بہار صوبے پولیو کے بڑے مراکز تھے جن پر توجہ مرکوز کرکے پولیو ختم کرنے میں مدد ملی۔ ہمارے ملک میں بنوں‘ شمالی وزیرستان اور لکی مروت پولیو وائرس کے گڑھ بن چکے ہیں۔ حکومت کو پہلے ان علاقوں کی حصار بندی کرنی چاہیے تاکہ پولیو وائرس یہاں سے باہر نہ پھیلے۔ پھر اِن جگہوں پر خصوصی آگہی اور ویکسی نیشن مہم چلانی چاہیے۔ ان اضلاع میں عوام کی اکثریت روایت پسند ہے۔ عُلمائے کرام کا اُن پر خاصا اثر و رسوخ ہے۔ وہ بنوں کے عوام کو ویکسی نیشن کے فائدہ کے بارے میں قائل کرنے میںزیادہ مددگار ہوسکتے ہیں۔ ملک سے پولو کا خاتمہ ریاست کی مجموعی صحت پالیسی سے بھی جُڑا ہوا ہے۔ حکومت اب تک صرف علاج معالجہ اور ہسپتالوں پر توجہ دیتی آئی ہے، اس نے بیماریوں کے اسباب کو ختم کرنے یا صحت عامہ (پبلک ہیلتھ) کے اقدامات جیسے پینے کے صاف پانی اور نکاسئی آب کی فراہمی کو بُری طرح نظر انداز کیا ۔پولیو وائرس انسانی فضلہ اور گندے پانی سے پھیلتا ہے۔ ہمارے ملک میں دس کروڑ عوام کے پاس بیت الخلا کی سہولت نہیں۔ یہ لوگ کھلی جگہوں‘ کھیتوں وغیرہ میں رفع حاجت کرتے ہیں۔ اسی طرح اکثریتی آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ کراچی جیسے شہر کی گلیاں گندگی سے اٹی ہوئی ہیں۔ حکومت تمام آبادی کو پینے کا صاف پانی‘ بیت الخلا اور نکاسئی آب مہیا کرنے کے عملی اقدامات ترجیحی بنیادوں پر کرے۔ صرف زبانی کلامی نہیں۔ ورنہ پولیو اور دیگر متعدی امراض جیسے ٹائیفائیڈ‘ اسہال‘ یرقان‘ گیسٹرو وغیرہ سر اُٹھاتے رہیں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک پولیو زدہ نہ رہے تو حکومت کو ایک جامع حکمت عملی سے کام لینا ہوگا۔