مجھے یاد ہے جب نظم کے طرحدار شاعر اختر حسین جعفری دنیا سے رخصت ہوئے تو کچھ اسی طرح کا یخ بستہ موسم تھا اور ہمارے کالم نگاروں نے ان کے لیے انہی کا کینٹو کوٹ کیا ہے۔ انہوں نے ایذرا پائونڈ کی وفات پر لکھا تھا: تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں تو جدا ایسے موسموں میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں پھولوں کے کفن سے میرا دھیان میرے بزرگ دوست ملک محمد حنیف کی طرف گیا کہ وہ میرے پڑوس میں رہتے ہیں جن کا جنازہ رات عشاء کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے خدیجۃ الکبریٰ پارک میں پڑھایا۔ میرے پیارے قارئین، یہی خدیجۃ الکبریٰ پارک جہاں ان کا جسد خاکی رکھا گیا تھا اور بے شمار لوگ ان کا جناہ پڑھ رہے تھے، یہ پارک مجھے اداسی اور حزن میں ڈوبا ہوا محسوس ہوا۔ اصل میں وہ صحیح معنوں میں اس پارک کے باغبان تھے۔ سن رسیدی میں انہوں نے اس پارک کو باغ بنائے رکھا، وہ اس کے ایک ایک پھول سے محبت کرتے تھے۔ یہ ساری ذوق و شوق کی بات ہے۔ یہ پارک انہی کے باعث آئیڈیل نظر آتا تھا۔ گل رت میں اس کے چاروں اور گلاب کے پھول مہکتے ہیں۔ قریب سے گزرنے والے ٹھہر کر ادھر دیکھتے ہیں۔ سچ مچ گلاب کے پودے پھولوں سے لد جاتے ہیں۔ صرف جنگلے کے ساتھ ہی نہیں اندر بھی پھولوں کی کیاریاں ہیں اور اسے پھولوں ہی سے سجایا گیا ہے۔ اس پارک کی سب سے اہم بات یہ کہ اس میں شام کے وقت عورتیں اور بچے سیر کے لیے آتے ہیں۔ ملک محمد حنیف صاحب باقاعدہ اس پارک کی نگرانی کرتے۔ میں نے اپنے کانوں سے لوگوں کو کہتے سنا کہ حنیف صاحب کے ہوتے ہوئے ہم بے فکر ہو جاتے اور اپنے بچوں کو یہاں چھوڑ جاتے۔ ایک تقدس اس کے ساتھ وابستہ تھا۔ وہاں سے کوئی بھی پھول نہیں توڑ سکتا تھا۔ ہاں موتیے کے پھول تو ہوتے ہی اس مقصد کے لیے ہیں۔ ملک صاحب علی الصبح خود موتیے کے پھول توڑ کر شاپر میں ڈالتے اور درس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو فرداً فرداً دیتے۔ ایک عجیب پاکیزہ سی فضا مہکنے لگتی۔ اس پارک میں یوگا کی کلاس بھی ہوتی ہے۔ سب کے روح و رواں ملک محمد حنیف تھے۔ وہی جو شیکسپیئر نے کہا ہے کہ یہ دنیا سٹیج ہے یہاں ہر کوئی آتا ہے، اپنا کردار ادا کرتا ہے، چلا جاتا ہے۔ اچھے کرداروں کو لوگ یاد رکھتے ہیں۔ یوں ملک صاحب کا کردار بھی خوشبودار ہے کہ وہ پھولوں سے اور لوگوں سے محبت کرتے رہے۔ پارک کو باقاعدہ وقت دینا، اسے آراستہ کروانا اور خلق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ایک خیر ہی تو ہے۔ جب جب یہاں پھول کھلیں گے ملک صاحب یاد آئیں گے: میں نے دیکھا ہے کہ وہ خود ہی بکھر جاتا ہے سعد جب پھول سے خوشبو نہ سنبھالی جائے ظاہر ہے پھول کو بھی فنا ہے مگر وہ فضا تو معطر کر جاتا ہے۔ پھولوں کے حوالے سے مجھے خیام یاد آیا جس نے زندگی میں اپنے شاگرد سے کہا کہ اس کی قبر باغ کے شمال ذرا باہر بنانا۔ شاگرد کو یہ بات اس وقت تو سمجھ میں نہ آئی۔ کچھ وقت گزرا اور خیام کی وفات پر وصیت کے مطابق اس کی قبر باغ سے باہر بنا دی گئی۔ دو سال بعد شاگرد تبریز آیا تو پھولوں کا موسم تھا۔ وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پھول ہوا کے ساتھ اڑ کر استاد کی قبر پر پڑ رہے ہیں۔ تب اسے اپنے استاد کی دانش اور حکمت کا اندازہ ہوا۔ یہ پھول ہمارے لیے ہیں، یہ الگ بات کہ ہم ان کے لائق نہیں: کیا بتائوں نوازشات اس کی ایک پتھر پہ پھول گرتے رہے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ملک محمد حنیف، ملک محمد شفیق کے والد محترم ہیں ۔ شفیق صاحب اس علاقے میں جماعت اسلامی کی طرف سے ایم پی اے کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں اور یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگ اتنے پرخلوص ہیں کہ وہ ایک مشن کیلئے کام کرتے ہیں۔ ہار اور جیت سے انہیں تعلق نہیں ہوتا۔ آپ لاکھ جماعت اسلامی کی ناکامیوں پر کالم لکھتے رہیں لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ یہ لوگ آپس میں ہی نہیں، اڑوس پڑوس کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ وگرنہ کون سا سربراہ ہے جو اس طرح جنازوں پر پہنچتا ہے۔ وہ تو سانحات پر فون کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ سراج منیر کی مثال سامنے کی ہے۔ وہ میاں صاحب کے لیے تقریریں لکھتا مرگیا مگر جنازے میں کوئی نہیں آیا۔ بے نظیر نے شیر افگن کے بیٹے کی وفات پر فون کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ سراج الحق صاحب ساری مصروفیات چھوڑ کر جنازہ پر پہنچے، انہوں نے خود جنازہ پڑھایا اور نماز سے پہلے انہوں نے سورۃ الملک کی ابتدائی آیات تلاوت کیں اور بتایا کہ اللہ پاک نے خود موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ ہمیں آزمائے کہ کون اچھے کام کرکے آتا ہے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ملک محمد حنیف ان کے اجتماعات میں شریک ہوتے رہے اور خیر کے کاموں میں پیش پیش رہے۔ واقعتاً ملک محمد حنیف اس علاقے میں لوگوں کے کام آتے۔ ان کی موجودگی سائے دار درخت کی سی تھی۔ وہ غالباً 80 سے تجاوز کر چکے تھے مگر ان کی پیرانہ سالی کہیں بھی رکاوٹ نہیں بنی۔ کالونی کے کاموں میں بھی شریک ہوتے، اسے کہتے ہیں ڈائی ان ہارنیس۔ ایک عجیب سا خیال بھی میرے ذہن میں آیا کہ اکثر پھولوں سے محبت کرنے والے بھی پھولوں جیسے ہو جاتے ہیں، اسی طرح روشنی بانٹنے والے خود روشن ہو جاتے ہیں: ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کوجلانے والے پھول بھی تو قدرت کا جلایا ہوا چراغ ہے، کبھی غور تو کریں، اس کی خوبصورتی کیسے سبزے کو دہکاتی ہے، وہی جو حسرت موہانی نے کہا تھا، دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام۔ بہرحال ہم ملک صاحب کے لیے دست دعا اٹھاتے ہیں، ان پھولوں کی طرح جو یقینا اسی کام میں مگن ہوں گے: اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے وہ بھی میری ہی طرح محو دعا لگتا ہے آپ ملک صاحب کے اس پیغام کو ضرور ذہن میں رکھیں کہ زمین کو پھولوں اور پودوں سے سجا کر خلق خدا کے لیے آسودگی اور آسانی فراہم کیں۔ خدمت خلق سے بڑی خدمت کیا ہوسکتی ہے کہ یہی خدا کو پانے کا راستہ ہے۔ تبھی تو کہا گیا کہ میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا۔