جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ ہفتے کچھ فوجداری اپیلوں کی سماعت کے دوران پولیس کے طریقہ تفتیش اور فوجداری مقدمات میں مجموعی خرابی کے حوالے سے بہت اہم نکات اٹھائے۔انہوں نے سزائے موت پانے والے قتل کے مجرم کی سزا معطل کرتے ہوئے کہا کہ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ صرف کرائے کی شہادتوں پر کسی کی جان نہیں لی جا سکتی۔پولیس کی طرف سے اہم فوجداری مقدمات کی تیاری میں نالائقی اور بھرتی کے گواہوں کے ذریعے کیس ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی خاص طور پر جسٹس کھوسہ نے نشاندہی کی۔ ہمارے ہاں پولیس کی کارکردگی انکی عوام کے لئے ایک مددگار فورس کی بجائے ایک ایسا عذاب بن چکی ہے جس کا کسی نہ کسی وقت ہر خاص و عام شکار ہو جاتا ہے۔ایک دفعہ کسی سلسلہ میں بھی آپ کا پولیس سے پالا پڑ جائے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔اسکی بہت سی وجوہات ہیں۔ جس میں سب سے بڑی وجہ پولیس کا حکمرانوں کی طرف سے سیاسی استعمال ہے۔ جو تقریباًسترّکی دہائی کے اواخر سے بھرپور طریقے سے شروع ہوا اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔اگرچہ اس سے پہلے بھی پولیس کو سیاسی مخالفین کو دبانے اور جعلی کیس بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جس میں چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا بدنام زمانہ مقدمہ بنایا گیا لیکن اسی کی دہائی اور اسکے بعد تو سیاسی مقدمات کی ایک بھرمار نظر آتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ تحریر ہے۔ ریاض حشمت جنجوعہ 1985ء کی غیر جماعتی اسمبلی میں جھنگ کے ایک حلقے سے ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ بعد میں زیادہ تر منتخب ارکان مشرف بہ مسلم لیگ ہو گئے جو جنرل ضیاء نے تیار کی تھی۔ ریاض حشمت ذرا آزاد منش تھے اور خصوصاً 1986 ء میں جب بینظیر بھٹو شہید وطن واپس لوٹیں تو وہ شریف حکومت کے ناقدین میں سر فہرست تھے۔ انہیں قابو کرنے کے لئے جھنگ پولیس کی ڈیوٹی لگائی گئی اور ان پر بھیڑ چوری کا مقدمہ تخلیق کیا گیا۔پولیس کے لئے یہ ایک معمول کا کام تھا لیکن جس محرر نے ایف آئی آر تحریر کی اس نے کمال تخلیق کا مظاہرہ کیا۔ الزام کچھ یوں بیان کیا گیا، پولیس پارٹی کو دیکھ کر ملزم نے فرار ہونے کی کوشش کی، مشکوک پا کر ملزم کو دھر لیا گیا، جامہ تلاشی پر ملزم کی بائیں بغلی جیب سے بھیڑ برآمد ہوئی۔ قمیض کی جیب سے بھیڑ برآمد کرنے کا کارنامہ پنجاب پولیس کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں دے سکتا۔ اس قسم کے الزامات اور فرسٹ انفارمیشن رپورٹس عام دیکھنے کو ملتی ہیں۔یہ سب سے اہم دستاویز ہوتی ہے لیکن شاذونادر ہی ایک صحیح ایف آئی آر پڑھنے کو ملے گی جس کی بنیاد پر مقدمے کو استوار کرنے میں مدد مل سکے۔ اس میں بھی بہت سے مسائل ایسے ہیں جس میں پولیس کے ساتھ ساتھ مدعی مقدمہ بھی قصور وار ہوتا ہے۔جیسا کہ قتل کے مقدمے میں عموماً کسی ایسے گواہ کی موجودگی کا ہونا بعید از قیاس ہے جو غیر جانبداری سے گواہی دے سکے۔ اگر وہ مقتول کا حامی یا رشتے دار ہے تو اس وقوعے کے وقت اسکا مزاحمت نہ کرنا بھی سمجھ سے بالا تر ہو گا۔ لیکن ہوتا کیا ہے کہ مقدمے میں کئی ایک چشم دید گواہ تیار کئے جاتے ہیں اور اسی طرح سے ملزم بھلے ایک ہی ہو لیکن کم از کم پانچ سے سات بندے مخالفین کے اس میں نامزد کر دیئے جاتے ہیں ۔ اس سارے جال میں ملزم اور مدعی خود ہی پھنس جاتے ہیں۔ جہاں تک پولیس کی طرف سے کیس کی تفتیش کا معاملہ ہے ، اس پر جسٹس کھوسہ نے بہت صحیح آبزرویشن دی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پولیس کو کیس تیار کرنا ہی نہیں آتا۔ یہ وہ پہلو ہے جس پر توجہ دیئے بغیر فوجداری مقدمات اور اس سے متعلقہ نظام عدل مؤثر طریقے سے کام نہیں کر سکتا۔پولیس کو سیاسی معاملات میں اس طرح سے الجھا دیا گیا ہے کہ انکی پوسٹنگ ٹرانسفر سے لیکر مقدمات کے اندراج اور انکی تفتیش تک کسی نہ کسی طورسیاسی اثرو نفوذ کے تحت ہوتی ہے۔ اسی کی دہائی سے تو جھوٹے مقدمات کے اندراج سے بات خاصی آگے بڑھ گئی ہے۔ اب تو پولیس مقابلہ بھی حکمرانوں کی سیاسی ضرورت میں شامل ہو چکا ہے اور اس بارے میں کئی مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ مشہور زمانہ عابد باکسر کیس اور فیصل آباد کے بیرون ملک فرار ایک پولیس انسپکٹر کے انکشافا ت اس بھیانک پہلو کا پتہ دیتے ہیں۔ایسے بھی بہت سے کیسز سامنے آئے ہیں جس میں پولیس کے لوگ مجرموں کے گینگ چلانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔جب حکمران اپنے مذموم مقاصد کے لئے پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں تو پولیس کے چالاک عناصر اس کی آڑ میں اپنا کام بھی نکال لیتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو صرف قتل، ڈکیتی اور چھوٹی موٹی وارداتوں کا سامنا نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کی جنگ میں جس قسم کی مہارت کی ضرورت ہے وہ پولیس میں نا پید ہے۔ جبکہ پولیس اس جنگ میں سب سے پہلی ڈیفنس لائن ہونی چاہئیے۔پولیس دہشت گردی کے واقعات روکنے میں بر وقت مشکوک کارروائیوں کا پتہ لگانے میں بہت اہم رول ادا کر سکتی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیںکہ پولیس نے اس جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور ان کا اعتراف ضروری ہے۔ بہت سی جگہوں پر پولیس کے جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر بڑے نقصان سے بچایا ہے۔لیکن جس قسم کے حالات کا ہمیں سامنا ہے اس میں انکی تربیت اور فوکس اہم پہلو ہونا چاہئیے۔ انکو ہر قسم کے سیاسی دبائو سے آزاد کرنا بہت ضروری ہے تا کہ وہ بلا خطر کسی بھی مشکوک شخص کے خلاف کارروائی کر سکیں۔اس کے ساتھ پھر احتساب کی بات بھی آتی ہے۔ اگر کوئی پولیس اہلکار اپنے اختیارات کے استعمال میں غلطی کا مرتکب پایا جائے تو اس سے بھی کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیئے۔اسکے ساتھ ساتھ پولیس کو جدید طریقہ تحقیق سے پوری طرح لیس ہونے کی ضرورت ہے تا کہ مقدمات کی تیاری میں کوئی کسر نہ رہے۔