وضعداری نہ تکلف نہ لطافت سمجھا دل کم فہم مروت کو محبت سمجھا قند میں لپٹا ہوا زہر تھا سب راز و نیاز میں کہ محروم وفا اس کو بھی عنایت سمجھا زندگی لطافت ہی تو مگر کثافت میں لپٹی ہوئی۔ آئینہ کے لئے زنگاری بھی تو ضروری ہے۔بہرحال زندگی کا مثبت پہلو تو خوبصورتی ہی ہے۔ شاید آپ نے بھی تو کسی شیر خوار کو گلکاریاں کرتے ہوئے اور ہاتھ پائوں مارتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ قدرت کا یہ شاہکار بقول شفیق الرحمن بڑا ہو کر اتنا پیارا نہیں رہتا۔ میں ورڈز ورتھ کو پڑھ رہا تھا تو اس نے اس دودھ کی بو سے مزین بچے کی ہنسی کی تعبیر یہ بتائی کہ وہ ابھی ارم کی یاد دماغ میں رکھتا ہے کہ جہاں سے اسے حکم سفر ہوا ہے پھر دنیا اسے سب کچھ بھلا دے گی۔ اصل میں مجھے آج پولیو کے حوالے سے لکھنا ہے اور اس بیماری کا تعلق زیادہ تر بچوں سے ہے کہ بچے پھول سے نازک ہوتے ہیں اور دمکتے ہوئے جگنو کی طرح جلتے بجھتے۔ان کا خیال رکھنا ازبس ضروری ہے کہ صحت مند اور توانا بچہ ہی زندگی کی منازل آسانی سے طے کر سکتا ہے۔ اسے ابتدائی ٹیکے لگوانا ہماری روایت کا حصہ ہے۔ کبھی چیچک کے ٹیلے بھی لگا کرتے تھے۔ پھر یہ بیماری تقریباً دنیا سے ختم ہو گئی مگر پولیو کی بیماری ابھی کہیں کہیں پھر سر اٹھا لیتی ہے اور ان بدقسمت چند ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ نونہال بہت نازک ہوتے ہیں اور پولیو وائرس کا اثر بہت جلد قبول کرتے ہیں۔ تمام احتیاطوں سے بڑھ کر اس کے قطرے پلائے جاتے ہیں کہ وائرس سے بچا جا سکے۔ سب سے پہلے تھوڑا سا اس بیماری کے بارے میں جان لیتے ہیں کہ پولیو وائرس خاص طور پر بچوں کو متاثر کرتیاہے یہ وائرس منہ کے راستے معدے میں جاتا ہے پھر شریانوں میں جا کر سپائنل کارڈ تک پہنچتا ہے جسے آپ ریڑھ کی ہڈی کہتے ہیں۔ یہیں سے یہ سنٹرل نروس سسٹم پر حملہ آور ہوتاہے۔ لہ یہ وائرس اعصاب کو تباہ کرتا ہے یعنی نیو رانز کو انفلیٹ کرتا ہے۔ ایسے ہی جیسے گردن توڑ بخار میں وائرس ذہن کو تباہ کرتا ہے۔ پولیو وائرس مووٹ نیورانز میں آ کر کام دکھاتا ہے ۔ سیلز مرنے لگتے ہیں مسلز کمزور پڑنے لگتے ہیں۔ ان میں احساس ختم ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں متاثرہ عضو پیرائزلائز یعنی مفلوج ہو جاتا ہے۔ خاص بات یہ کہ پولیو وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص تک پھیلتا ہے کہ یہ آلودہ پانی مریض کی کھانسی وغیرہ سے دوسروں تک پہنچ سکتا ہے۔ پولیو اصل میں فالج ہی ہے۔ یہ پیرالائٹک پولیو کہلاتا ہے۔ پھر پولیو کی کئی اقسام ہیں جس کی وضاحت کی یہاں ضرورت نہیں۔ یہاں لکھنے کا مقصد تو یہ ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہیے یہ ویکسی نیشن انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ غلط پراپیگنڈہ سے اس مہم کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ پاکستان‘ افغانستان صرف دو ملک ہیں جو ابھی تک اس بیماری سے نہیں نکلے کچھ لوگ بے چارے سادہ لوگوں میں یہ بات پھیلا دیتے ہیں کہ یہ تو کوئی اسلام دشمن قوتوں کی سازش ہے کہ مسلمان بچوں کو قطرے پلا کر انہیں نسل جاری رکھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے یعنی بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ خاص طور پر مسلمانوں کی آبادی بڑھنے نہ پائے۔ مگر ہماری آبادیاں تو اللہ کے فضل سے قطرے پینے کے بعد دگنی چوگنی ہو رہی ہیں جیسے پولیو کا وائرس ضرب کھاتے ہوئے بڑھتا ہے۔ شاید اس مہم کو ان دنوں بھی جھٹکا لگا کہ جب اسامہ بن لادن کو شہید کرنے کے لئے امریکہ نے آپریشن کیا تو ان کے ٹائوٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پولیو ایجنٹ کے طور پر ہی اس علاقے میں داخل کیا۔ لوگ متنفر ہوئے یعنی امریکہ نے اس حرکت سے لوگوں کو پولیو مہم سے بدظن کیا۔ اس وقت اس کے لئے آگاہی مہم بھی ضروری ہے جانتے ہیں کہ پولیو کی ٹیموں پر مختلف علاقوں میں حملے بھی ہوئے جو سراسر غلط فہمی اور جہالت کے باعث ہوئے ہیں۔ قطرے پلانے والی ٹیموں کی حفاظت بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ بے چارے تو غریب طبقے سے ہوتے ہیں خاص طور پر مجبورعورتیں گھر کا چولہا چلانے کے لئے یہ معمولی نوکری کر لیتی ہیں اور یہ بہت مشکل کام ہے کہ در در پھرنا اور بچوں کو ڈھونڈ کر قطرے پلانا یہ لوگ آپ کے محسن ہیں جو آپ کے گھر پہنچ کر بچوں کو آنے والی بیماری سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اب ذرا اس کی ویکسین کو بھی سمجھ لیں تو اچھا ہے اور دلچسپ بھی کہ پولیو ویکسین کو جسم میں دخل کیا جاتا ہے تو یہ اصل میں زخمی حالت میں کمزور وائرس ہی ہوتا ہے جسے ہمارے جسم میں مدافعتی فورس چن چن کر مار دیتی ہے مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط کیا جائے کہ جب وہ اندر داخل ہونے والے زخمی اور کمزور وائرس کو مارتے ہیں تو وہ قوت بھی حاصل کر لیتے ہیں اور وائرس کی پہچان بھی کر لیتے ہیں تاکہ آئندہ جب کبھی یہ وائرس جسم میں داخل ہونے کی جسارت کرے تو ہمارا نظام جو پہلے ہی منتظر ہوتاہے اس وائرس کو مار دے۔ یہ اصل میں ہمارے دفاع کو مضبوط کرنے کا جتن ہے۔ پولیو میں مصیبت یہ ہے کہ جو مسلز بے حس ہوتے ہیں وہ بحال نہیں ہوتے۔یہاں معروف عالم دین مفتی طارق مسعود کی بات نقل کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے کئی دیندار ڈاکٹروں سے ملاقات کی اور ان سے پولیو کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو وہ کہتے ہیں کہ اس کی مخالفت بالکل بے معنی ہے۔ تاہم ورلڈ آرگنائزیشن اس بیماری کو ختم کرنا چاہتی ہے کہ یہ بہت خوفناک ہے کہ چاند سا بچہ متاثر ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لے گرہن زدہ ہو جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں خود دلچسپی لے۔ قطرے پلانے والے باقاعدہ ٹرینڈ ہوں اور ویکسی نیشن محفوظ رکھی گئی ہو۔ آپ اپنی دلچسپی کے لئے پولیو کی تاریخ دیکھیں تو حیران رہ جائیں۔ یہ کوئی نئی بیماری نہیں پہلے 18ویں صدی میں بیماری کی صورت میں سامنے آئی۔ امریکہ سمیت بعض ملکوں میں اس کے ہزاروں کیس سامنے آئے۔ پولیو وائرس 125ملکوں میں پایا گیا تھا پوری دنیا ہل گئی تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ پسماندہ ملکوں میں سے بھی اس بیماری کو ختم کیا جائے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ باقاعدہ مہیا کی گئی ویکسین کا لیبارٹری ٹیسٹ کروا کے لوگوں کو آگاہی دے۔ اس مہم میں رکاوٹیں ڈالنے والے ہمارے خیر خواہ نہیں۔یہ افسوسناک ہے کہ پاکستان اورفغانستان صرف دو ملک ابھی تک پولیو کو مکمل ختم نہیں کر سکے۔ اللہ کرے ہمارے آنگن ہمارے پھولوں سے مہکتے رہیں: ہم ہیں پھولوں جیسے بچے ہم ہیں سب کو پیارے اپنے دم سے گھر ہے روشن ہم ہیں آنگن تارے آنگن آنگن تارے