حیرت ہوتی ہے کہ بعض نہایت آسان اور سامنے کی باتیں سمجھانے کے لئے بھی ہمیں سرکاری اور قومی سطح پرمہم چلانی پڑتی ہے۔جیسے ٹی وی، ریڈیو پر کروڑوں روپے خرچ کر کے تشہیری مہم چلتی ہے، جس میں والدین سے اپیل کی جاتی ہے کہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرات پلائیں۔ ایسا کیوں کرنا پڑتا ہے ؟پولیو جیسی سنگین بیماری کے بارے میں بھی کسی کو کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے؟ ہمارے دائیںبائیں، محلے میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسا پولیو کا مریض نظر آجاتا ہے جو بروقت ویکسین نہ ملنے کے باعث معذور ہوگیا اور اب بیساکھی کے ذریعے چلنے کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہیں۔ اگر پولیو جیسی بیماریوں کے بارے میں بھی آگہی پھیلانے کی نوبت آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری قوم مجموعی طور پر عقل وخرد سے خاصے فاصلے پر ہے اورہمارے اہل دانش عوام کو بنیادی چیزیں بھی نہیں سمجھا سکے۔ تفصیل سے بات کرتے ہیں، مگرچند مختصر نکات میں نچوڑبیان کردیں۔ پہلی بات یہ کہ پولیو ایک سنگین ، مہلک بیماری ہے، جس کے وائرس اگر حملہ آور ہوں تو کسی بھی قسم کا علاج کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ دوسرا یہ کہ خوش قسمتی سے اس بیماری کی ویکسین تیار ہوچکی ہے اور وہ استعمال کرنے کے بعد پولیو وائرس اثرنہیں کر سکتا۔ تیسرا یہ کہ پولیو ویکسین بالکل محفوظ ہے، اس کے کسی بھی قسم کے نقصانات موجود نہیں اور پوری دنیا کے ملکوں نے اسی ویکسین کو استعمال کر کے ہی اس موذی مرض سے نجات پائی ہے۔ چوتھا یہ کہ اسلامی دنیا کے اہم ممالک جیسے سعودی عرب، ایران، ترکی، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین، اومان ،اردن ،ملائشیا، انڈونیشیا،برونائی، مراکش، تیونس وغیرہ اسی پولیو ویکسین کو استعمال کر کے ہی پولیوسے ہمیشہ کے لئے جان چھڑا چکے ہیں۔ سعودی عرب میں کوئی بھی شخص حج یا عمرہ کی غرض سے جائے تو اسے پولیو قطرے پلائے بغیر ائیر پورٹ سے جانے نہیں دیتے ۔وہاں پچھلے کئی برسوں میں کوئی پولیو کا مریض سامنے نہیں آیا۔ اس ویکسین کے کسی بھی قسم کے منفی اثرات وہاں نہیں آئے۔ پانچواں یہ کہ ان تمام مسلم ممالک کے علما کرام اور ڈاکٹر حضرات نے اس پولیو ویکسین کو لازمی استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔چھٹا نکتہ یہ کہ پولیو ویکسین سے آدمی بانجھ نہیں ہوتا، اس کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت میں قطعی کمی نہیں آتی، دنیا بھر میں ایسے لاکھوں ، کروڑوں لوگ ہیں جنہوں نے ویکسین استعمال کی اور آج وہ الحمدللہ صحت مند بچوں کے ماں باپ ہیں۔ اگر پولیو قطرات ایک سے زائد باربچے پی لیں تب بھی یہ نقصان دہ نہیں۔ساتوا ں اور اہم پوائنٹ یہ ہے کہ جو لوگ پولیو ویکسین کی مخالفت کر رہے ہیں وہ پرلے درجے کے جاہل، احمق اور بے بنیاد سازشی نظریات کے اسیر ہیں، انہیں خواب میں بھی یہود وہنود کی سازشیں نظر آتی ہیں اور حقیقت میں انہیں سائنس، جدید علوم یا طب کا کچھ بھی نہیں پتہ۔ پولیو ویکسین کے بارے میں موجود مغالطوں کی اصلیت جاننے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ پہلے ویکسین اور پولیو ویکسین کے تصور کو سمجھ لیا جائے۔ ویکسین دراصل بیماریوں کے خلاف پہلے سے جسم کے اندر مدافعت پیدا کرنے کا نام ہے۔ جن امراض کی ویکسین ابھی تک ایجاد ہوچکی ہے، ان میں ا س مرض کے مردہ یا غیر فعال وائرس یانہایت کمزور اور کم قوت والے وائرس کو جسم کے اندر داخل کیا جاتا ہے۔یہ وائرس چونکہ مردہ یا نیم مردہ ہوتے ہیں، اس لئے یہ جسم کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، مگر انسانی جسم اپنی تربیت کے مطابق انہیں بطور دشمن یا فارن باڈی کے شناخت کر لیتا ہے، انہیں اپنی یادداشت میں رجسٹر کر لیتا اور ان کے خلاف اینٹی باڈی تیار کر لیتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب اس بیماری کے اصل جراثیم حملہ آور ہوں تو جسم ان کے لئے پہلے سے تیار ہوتا ہے اوراس کا مدافعتی نظام وقت ضائع کئے بغیر ان پر حملہ کر کے خاتمہ کر دیتا ہے۔ اس کا نام ویکسین اس لئے رکھا گیا کہ شروع میں اٹھارویں، انیسویں صدی کی ایک نہایت خطرناک بیماری پلیگ (طاعون) کے خلاف ویکسین تیار ہوئی۔ چونکہ اسے گائے کو متاثر کرنے والے وائرس سے بنایا گیا، لاطینی میں گائے کے لئے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے اس کا تلفظ ویکسین سے ملتا جلتا ہے، اس لئے اسی مناسبت سے اسے ویکسین کہا گیا۔ پلیگ نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو ہلاک کیا تھا، اس کا علاج مشکل تھا، اس کا شکار ہونے والے مریضوں میں سے بیس تیس فیصد تک جانبر نہیں ہوپاتے۔ اس لئے جب ویکسین بنی تو بڑے پیمانے پر اس کی مہم چلائی گئی۔ 1853ء میں انگلینڈ میں طاعون کی لازمی ویکسی نیشن کا قانون بنا، پابندی نہ کرنے والوں پر بھاری جرمانے لگائے گئے۔ امریکہ اور یورپ میں حکومتوں نے اس ویکسی نیشن کو کامیاب بنایا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس بیماری نے تین سے پانچ کروڑ لوگوں کوہلاک کیا، آج اس کا دنیا سے نام ونشان ہی مٹ گیا۔ اسی طرح انفلوئنزا وائرس ہے، جس نے یورپ کے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا تھا، کامیاب ویکسی نیشن سے یہ خطرہ بھی ٹل گیا۔ اسی طرح چیچک (سمال پاکس) ہے، جس نے صرف پچاس سال پہلے پاکستان کے ہزاروںلوگوں کو نشانہ بنایا تھا۔ آج بھی پچاس ساٹھ برس کی عمر کے چیچک زدہ چہرے والے لوگ نظر آجاتے ہیں، مگر جب اس کی ویکسین بنی اور اسے موثر مہم کے ذریعے ہر بچے تک پہنچا دیا گیا تو اس موذی مرض کا خاتمہ ہوگیا۔ خوش قسمتی سے پولیو جیسے خطرناک مرض کی ویکسین بھی ایجاد ہوچکی ہے۔ پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے، اس کا وائرس مرکزی اعصابی نظام کونشانہ بناتا ہے اور ایک دفعہ اس کا حملہ ہوجائے تو مریض کے پاس معذوری کے سوا کوئی اور چارہ نہیں؛ تاہم اس کی ویکسین بہت کامیاب ہے۔ پولیو کے حوالے سے ستر اور اسی کے عشرے سے ویکسی نیشن جاری تھی؛ تاہم 1988ئٓ میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسف نے مل کر بڑے پیمانے پر اس کی ویکسی نیشن شروع کی،پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، مڈل ایسٹ سمیت افریقہ کے ممالک میں اس بیماری پرقابو پانے کیلئے امدادی پروگرام شروع کئے گئے۔ 88ء میں دنیا بھر میںپولیو کے ساڑھے تین لاکھ کیس سامنے آئے ، مگر 2011ء میں ان کی تعداد صرف ساڑھے چار سو رہ گئی۔ یورپ اور امریکہ میں یہ بالکل ختم ہوگئی۔ بھارت میں پچھلے دو برسوں کے دوران کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا۔بنگلہ دیش پہلے ہی پولیو فری بن چکا ہے۔ اس وقت دنیا کے تین ممالک نائجیریا، پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے مریض موجود ہیں، شام میں بھی چند کیسز سامنے آئے ہیں، مگر وہاں خانہ جنگی کے باعث ویکسی نیشن ہو ہی نہیں سکی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی طرح نائجیریا کی مسلم ریاستوں میں بھی بعض شدت پسند مسلم گروپوں نے فتویٰ دیا کہ اس ویکسی نیشن کے ذریعے مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے، وہاں کے ایک اہم شہر کانو میں پولیو ویکسی نیشن کرنے والے کارکنوں پر القاعدہ کے حامی گروپوںنے حملے بھی کئے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچے کو پیدائش کے بعد جن چھ مہلک بیماریوں کالی کھانسی، خناق، تشنج وغیرہ کے حفاظتی ٹیکے لگتے ہیں، وہ بھی ویکسین ہی ہے ،باہر ہی سے آئی ہے، مگر کبھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔بچوں کو خسرے سے بچائو کے لئے ویکسین بھی لگوائی جاتی ہے۔ نجانے صرف پولیو کے حوالے سے یہ تھیوری کیوں گھڑ لی گئی ہے؟ ویسے بھی مسلم ممالک میں سے فلسطین کی آبادی کے حوالے سے اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی عالمی قوتوں کو تشویش ہوسکتی ہے۔ فلسطین میںپولیو کی ویکسین پچھلے تیس برسوں سے جاری ہے، ان کی آبادی کم ہونے کے بجائے بڑھ ہی رہی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ایک فلسطینی عورت اوسطاً4.38 بچے پیدا کرتی ہے، جبکہ اسرائیلی عورت اوسطاً تین اور پاکستانی عورت اوسطاً 3.34بچے پیدا کرتی ہے۔ ہر فلسطینی نوجوان کو پولیو کی ویکسین لگ چکی ہے ،ان کے نتائج تو الٹا ان کے حق میں گئے ہیں۔ ویسے پاکستان کے شہری علاقوں میں پچھلے تیس برسوں سے پولیو ویکسین لگ رہی ہے، لاکھوں، کروڑوںلڑکوں، نوجوانوں کو اس کا ٹیکہ یا قطرے پلائے جا چکے ہیں۔ اگر یہ نقصان دہ ہوتی تو آج شہر ویران ہوتے، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ایک بچکانہ اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اہل مغرب کینسر ، ہیپاٹائٹس اور دیگر زیادہ خطرناک امراض کو چھوڑ کر صرف پولیو ویکسین پر کیوں زور دے رہے ہیں؟ اعتراض کرنے والوں کو علم نہیں کہ وہاں بے شمار ادارے ہیں جو مختلف حوالوں سے بیک وقت کام کرتے رہتے ہیں۔ کینسر کی ریسرچ کے لئے اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں، ہزاروں پراجیکٹ اس ہدف پر کام کر رہے ہیں، اسی طرح دیگر امراض ہیں۔ پولیو کا معاملہ یہ ہے کہ یہ چیچک کی طرح دنیا سے مٹنے والی ہے، صرف پاکستان اور اس جیسے ایک دو ممالک سے خاتمہ ہونا باقی ہے، اس لئے اس’’ گرتی ہوئی دیوار‘‘ کو زوردار دھکا دیا جا رہا ہے۔ پولیو ویکسین نہ کرانا ایک طرح کا جرم ہے ،جو لوگ سوچے سمجھے بغیر اس حوالے سے بے بنیاد افواہوں کو پھیلاتے ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ خدا را اپنی عام زندگی میں بے شک نت نئے سازشی نظریے گھڑکر خوش ہوتے رہیے ، مگر اپنے معصوم بچو ں کی زندگیوں کے ساتھ تو کھلواڑ نہ کریں۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں، معذورمستقبل کی فصل تو کاشت نہ کیجئے۔