مکرمی !پاکستان میں رواں سال کا پہلا پولیو کیس صوبہ خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہوا ہے۔ خبروں کے مطابق تین سالہ متاثرہ بچے کا تعلق ضلع بنوں سے ہے۔ پولیو کی موجودگی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وائرس ہماری کمیونٹیز میں گردش کر رہا ہے اور ہمارے بچوں کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ رمضان اور عید قریب آنے کے ساتھ آبادی کی نقل و حرکت وائرس مزید پھیلنے کا خطرہ بڑھا سکتی ہے اِس لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں۔رواں برس جنوری میں لاہور کے دو الگ الگ مقامات سے ماحولیاتی نمونوں میں پہلی بار پولیو وائرس کی تشخیص ہوئی جس کے بعد سے مزید دو نمونوں میں اِس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ ماضی میں بھی پولیو کا وائرس مختلف شہروں میں کہیں نہ کہیں سے ملتا رہا ہے جس کی وجہ سے پولیو فری پاکستان کا خواب آج تک شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکا۔ دنیا بھر سے اگرچہ اِس کا خاتمہ کر دیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے صرف افغانستان اور پاکستان وہ ممالک ہیں جہاں پولیو آج بھی موجود ہے،اِس کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیار کے مطابق کسی ملک میں لگا تار تین سال تک پولیو کا کوئی کیس سامنے نہ آنے کی صورت میں ہی اسے پولیو سے پاک ملک (پولیو فری کنٹری) قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پولیو ویکسین کے بارے میں عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیاں، ملک کے اندر عدم تحفظ اور صحت کا ناقص نظام پولیو کے خاتمے کی مہم اور بیماری کے خاتمے میں ناکامی کی بڑی وجوہات ہیں۔ انسانی جسم میں یہ وائرس آنتوں کو اپنا مسکن بنا کر بڑھتا ہے جہاں سے یہ اعصابی نظام پر حملہ کر کے اعضا کو متاثر کر سکتا ہے، اِس کا کوئی علاج نہیں ہے اور اِسے صرف حفاظتی ویکسین ہی سے روکا جا سکتا ہے۔ (جمشیدعالم صدیقی‘ لاہور)