پاک امریکہ تعلقات بہت سے معقول امریکی صدور کی موجودگی میں بھی اکثر مسائل کا شکار رہے ہیں ، اب تو خیر مسٹر ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں جنہوں نے زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد سے دنیا بھر میں اپنے ٹویٹ اور غیر محتاط زبان کے ذریعے ایک تھر تھلی مچا رکھی ہے۔انکے رویے سے اپنے بیگانے سب ہی پریشان ہیں۔خاص طور پر اہم امریکی قومی ادارے انکے رویے اور بغیر سوچے سمجھے فیصلے صادر کرنے کا رحجان پینٹا گون ہو، جسٹس ڈیپارٹمنٹ ہو یا پھر سٹیٹ آفس تشویش کا شکار ہیں ۔ اسکی ایک جھلک چند دن قبل نیو یارک ٹائمز میں چھپنے والے امریکی انتظامیہ کے ایک گمنام افسر کا مراسلہ ہے جس کا عنوان اس صورتحال کی عکاسی کرتا ہے جو ان اداروں کو درپیش ہے۔I am part of the resistance inside Trump adminitrsation. ، (میں ٹرمپ انتظامیہ کے اندر مزاحمتی عمل کا حصہ ہوں) اس مراسلے کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ امریکی انتظامیہ صدر ٹرمپ کے ہاتھوں کن مشکلات کا شکار ہے اور وہ دعائیں مانگ رہے ہیں کہ ٹرمپ جب تک صدر ہیں یہ عرصہ خیر خیریت سے گزر جائے۔ اس مراسلے کے چھپنے کے بعد جہاں امریکی انتظامیہ اپنی اپنی صفائی پیش کر رہی ہے کہ اس مراسلے سے انکا کوئی تعلق نہیں وہیں امریکی صدر نے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کو نیویارک ٹائمزکے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کر دی ہے۔ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے جس میں پتہ نہیں کون کون بہہ جائے گا۔امریکی انتظامیہ کے اندر ایسی ہلچل مچ گئی ہے جو شایدامریکی تاریخ میں پہلے نہیں دیکھی گئی۔ یہ ایک واقعہ امریکی انتظامیہ کی مشکلات کو سمجھنے میں بہتر طور پر مدد کرے گا۔ حالیہ مئی کے مہینے میں پاکستان میں پیش آنے والا ایک واقعہ جس میں امریکی ملٹری اتاشی کرنل جوزف کی گاڑی کے حادثے میں ایک پاکستانی شہری جاںبحق ہو گیا تھا اور امریکہ اسکی واپسی چاہتا تھا۔ اس بارے میں کافی بحث و تمحیص کے بعد کرنل جوزف کو واپس بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا۔ اسکی روانگی کا جو وقت طے تھا اس سے چند گھنٹے پہلے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے پاکستان میں موجود سفیر کے ذریعے ایک غیر رسمی درخواست کی۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ اب جبکہ کرنل جوزف کو پاکستان سے جانے کی اجازت دی جا چکی ہے تو اسکو مقررہ وقت سے پہلے ہی روانہ کر دیا جائے۔ جب پاکستانی حکام نے وجہ پوچھی تو انہیں آف دی ریکارڈ یہ بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ ابھی سوئے ہوئے ہیں ،اگرانکے اٹھنے تک کرنل جوزف پاکستان سے روانہ نہ ہوئے اور انکے علم میں آ گیا تو ہمیں خدشہ ہے صدر امریکہ کوئی الٹی سیدھی ٹویٹ کر دیں گے جس سے آپ بھی برہم ہو سکتے ہیں اور یہ معاملہ ایک بار پھر خراب ہو سکتا ہے۔اس سے پہلے صدر ٹرمپ پاکستان کے بارے انتہائی بیہودہ بیان دے چکے تھے جس میں پاکستان کو پیسے لے کر دھوکہ کرنے کا طعنہ دیا گیا تھا۔اس تناظر میں امریکہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو پاکستان کے دورے کی درخواست کرتے ہیں تا کہ وہ یہاں نئی قیادت سے ملکر اندازہ کر سکیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔یہ دورہ توقعات سے بھی اچھا رہا ہے ۔ اس بارے میں بات کرنے سے پہلے کچھ بات ان تبصروں اور تجزیوں کے حوالے سے ہو جائے جو اس دورے پر اعتراضات پر مبنی رہے۔ کچھ حقائق ہیں جو شاید تجزیہ نگاروں کے مد نظر نہیں تھے اس لئے کچھ غیر ضروری تنقید ہوئی۔ جو زیادہ تر مائیک پومپیو کا ائر پورٹ پر ہمارے وزیر خارجہ کا استقبال نہ کرنا، مشترکہ پریس کانفرنس اوراعلامیہ کے نہ ہونے کے بارے میں تھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا یہ دورہ اصل میں سرکاری دورہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ سرکاری دورے کے لئے اچانک فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ اسکی تیاری کے لئے اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے جس میں ایجنڈا پوائنٹس کی تیاری، افسران کی سطح پر باقاعدہ رابطے جس میں دورے کی تاریخ سے لیکر، سیکورٹی، رہائش اور پرٹوکول کے معاملا ت بھی طے کئے جاتے ہیں ۔ اس دورے کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ نے درخواست کی تھی کہ وہ ٹو پلس ٹو اجلاس کے لئے بھارت جا رہے ہیں لیکن اس سے قبل پاکستان کی نئی قیادت سے ملنا چاہتے ہیں تا کہ انہیں سیاسی سطح پر شدید سرد مہری کا شکار تعلقات کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے۔اس دورے کو ایک ورکنگ دورہ ہی کہا جا سکتا ہے یہ سرکاری دورے کے زمرے میں بالکل نہیں آتا۔ اسی لئے نہ توشاہ محمود قریشی کا ایئر پورٹ پر جانا اس قدر اہم تھا اور نہ ایسے دوروں میں مشترکہ اعلامیہ یا پریس کانفرنس کی روایت ہے۔ جہاں تک اس مختصر دورے اوراسکے پاکستان امریکہ تعلقات پر اثرکا معاملہ ہے تو ملاقات کے بعد ہمارے وزیرخارجہ نے جو کچھ کہا اور امریکی ترجمان کا جو بیان جاری ہوا، اس میں معاملات بہتری کی طرف گامزن ہونے کی واضح نشانیاں ہیں۔امریکی ترجمان کے بیان میں سیاسی قیادت کے حوالے سے اچھے جذبات کا اظہار کیا گیا۔بلکہ اس بیان میں جو زبان استعمال کی گئی اس کے بارے میں اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے پہلی بار پاکستان کے حوالے سے کسی بیان میں سفارتکاروں والی زبان استعمال کی گئی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔دونوں ممالک نے تعلقات کی نئی بنیاد رکھنے کی بات کی ہے جسے resetting of relationship کا نام دیا جا رہا ہے۔پھر توقع یہ کی جا رہی تھی کہ بھارت میں جا کر امریکی وزیر خارجہ دل کی بھڑاس نکالیں گے، لیکن ایسا بھی کچھ نہیں ہوا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کو امریکی دورے کی دعوت دی گئی ہے تا کہ معاملات کو آگے بڑھایا جا سکے۔مجموعی طور پر اس دورے کو بہت اچھی پیش رفت کہا جا سکتا ہے اور اسکا کریڈٹ جہاں سول اور فوجی قیادت کی ہم آہنگی کو جاتا ہے، نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزارت خارجہ کی ٹیم کو بھی داد دینا ہو گی۔میری اطلاع کے مطابق قومی قیادت سے ملاقات سے قبل جسںانداز میں دونوں وفود کے درمیان دفتر خارجہ میں بات چیت کا آغاز ہوا ہے اس نے اس مختصر دورے کی سمت طے کر دی۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات صحیح سمت میں چل پڑے ہیں ۔ اسکی پہلی نشانی امریکی امداد کی بحالی کا اعلان ہو سکتا ہے۔