بقول حمزہ شہبازشریف ،میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی پرسوں لاہور آمد کے موقع پر عوامی عدالت لگے گی اور عوام فیصلہ سنائیں گے، گویا کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر میاں صاحب کو جی آیا نوں کہے گا ۔خیال تو بڑا اچھا ہے لیکن اس پر شاید عمل درآمد اتنا آسان نہیں ۔ایون فیلڈ ریفرنس میں تینوں مجرموں میاں نوازشریف ،مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے جن میں سے کیپٹن (ر) صفدر کو اتوار کو راولپنڈی میں’’پکڑم پکڑائی ‘‘کے بعد گرفتار کر لیا گیا جبکہ میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو بھی لاہور لینڈ ہوتے ہی گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پرویزمشرف دور میں بھی جب نوازشریف وطن واپس آئے تو ان کا استقبال کرنے والوں کے لیے طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیںاور ائیرپورٹ سے ہی واپس جدہ روانہ کر دیا گیا تھا۔ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) بندے اکٹھے کرنے کے حوالے سے ہمیشہ نکھد ثابت ہوئی ہے،جمعہ کو گرینڈ شو بنانا مشکل نظر آتا ہے ۔شنید ہے کہ میاں صاحب کے وکیل خواجہ حا رث نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں بلکہ وکالت نامے پر نوازشریف اور،مریم نواز کے دستخط بھی کروا لیے ہیں ویسے تو نوازشریف اور مریم نواز کو اپیل دائر کرنے کے لیے قانونی طور پر ابھی کچھ وقت حاصل ہے ۔غالبا ً اپیل دائر کرنے کے لیے ان کا پاکستان میں ہونا ضروری ہے ۔میاں صاحب کے وکلا اور ان کے حامی اخبار نویسوں کے مطابق فیصلے میں ٹھوس شہادتوں کے بجائے اخذکردہ شہادتوں پر ہی انحصار کرتے ہوئے ایون فیلڈ فلیٹس کا حقیقی مالک بتایا گیا ہے ۔جمعہ کے روز فیصلہ سنانے کے وقت میں کئی مرتبہ تبدیلی کی گئی اور بالا ٓخر یہ سا ڑھے چار بجے سہ پہر سنایا گیا ۔اس ضمن میں یہ قیاس آرائی کی گئی کہ چار سو صفحات کی فوٹو کاپیاں کرنے میں تاخیر ہوئی لیکن اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ احتساب عدالت کے سربراہ جج محمد بشیر نے عدالت سے صحافیوں کو نکال کر کمرہ اندر سے کیوں بند کردیا؟ ۔ ایک مقامی میڈیا گروپ کے تجزیہ کار انصارعباسی کی خصوصی رپورٹ کے مطابق جج محمد بشیر نے فیصلہ سنانے میں بظاہر ہچکچاہٹ سے کام لیا۔انصارعباسی کے مطابق سابق وزیراعظم کو کرپشن ،بدعنوانی اور غیرقانونی طریقے سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس حاصل کرنے کے الزام سے بری کیا گیا تاہم انہیں لندن فلیٹس کس طرح خریدے گئے اس کی وضاحت کرنے میں ناکامی پر سزا سنائی گئی ۔فیصلے میں یہ بھی قبول کیا گیا کہ متعلقہ دستاویزات کی عدم موجودگی میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت ثابت کرنا مشکل ہے اور فیصلے میں واضح کر دیا گیا کہ عدالت استغاثہ کے گمان پر بھروسہ کر رہی ہے کہ جائیداد کے حقیقی مالک نوازشریف 1990ء سے ان اپارٹمنٹس میں رہتے چلے آ رہے ہیں ۔مزید یہ کہ یہ جائیداد آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدی گئی ۔لہٰذا دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔اپنے کیس کے حق میں جس کے مطابق نوازشریف کو غلط سزا دی گئی انصارعباسی نے کچھ پرانے کیسز کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں بالخصوص جسٹس آصف سعید کھوسہ کے تحریر کردہ ایک فیصلے کے مطابق کہ استغاثہ کو جائیدادکے کرپشن سے تعلق کو قائم کرنا ہوتا ہے جس کے بغیر سزا نہیںدی جا سکتی کا ذکر کیا ہے ۔ انصارعباسی اور بعض وکلا کے تجزیئے اپنی جگہ پر لیکن نیب عدالت تو اپنا کام کر چکی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ فیصلے میں مبینہ سقم سے نوازشریف کو کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں؟۔ پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ کیا نیب کے فیصلے کے خلاف میاں صاحب کے وکیل حکم امتناعی حاصل کر سکیں گے یا نہیں ۔ہائیکورٹ جو غالبا ً اسلام آباد ہائیکورٹ ہی ہو گی ایسا کر سکتی ہے یا وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ فوری طور پر اپیل سنیں گے ۔’پاناما گیٹ ‘ اور اس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی ،سپریم کورٹ سے اقامہ کے تحت نوازشریف کی تاحیات نا اہلی اور اب نیب عدالت کی سزا کے تناظر میں دیکھا جائے تو اب تک میاں نوازشریف کو کوئی ریلیف نہیں ملا ۔دیکھنا یہ ہے کہ نیب کے کیس میں بتائی گئی تکنیکی خرابیوں کی روشنی میں عدالت ان سے کس قسم کا سلوک کرتی ہے ۔ جہاں تک نوازشریف اوران کی صاحبزادی کی واپسی کے سیاسی محرکات کا تعلق ہے۔ اس پر مختلف آرا دی جا سکتی ہیں لیکن اگر میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کی ضمانت نہیں ہوتی تو انھیں جیل سے ہی اپنی سیاست کرنا پڑے گی اور اس صورت میں انتخابی مہم جوئی کی ساری ذمہ داری مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کے کندھوں پر ہی ہو گی ۔ میاں شہبازشریف کا کہنا ہے کہ25 جولائی کو عوام مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دے کر نیب کا فیصلہ دریا برد کر دیں گے لیکن دوسری طرف شہبازشریف کو اپنے امیدواروں اور ووٹروں کے پست حوصلوں کو بلند کرنے کی بھرپور سعی کرنا پڑے گی کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بعض امیدوار مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں یا جماعت کے پکے ووٹرز اس دن ووٹ ڈالنے ہی نہ نکلیں اور ان کی جماعت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ اگر واقعی کوئی ’’خلائی مخلوق‘‘ ان کے درپے ہے تو انہیں اور ان کے امیدواروں کو کوئی ریلیف ملنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ اگر نوازشریف کی ضمانت ہو جاتی ہے تو یہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے لیے بہت بڑا طاقت کا ٹیکہ ہو گا کیونکہ میاں صاحب گھر نہیں بیٹھیں گے۔ دوسری طرف منی لانڈرنگ کے حوالے سے معروف بینکر حسین لوائی جو آصف زرداری اور ان کے دست راست انور مجید کے قریب بتائے جاتے ہیں کی اس مرحلے پر گرفتاری اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ آصف زرداری کے گردگھیرا تنگ کیا جا رہا ہے ۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو وطن عزیز میںصرف ایک ہی پوتر ،راست باز اور ایماندار سیاستدان عمران خان اور ان کی پارٹی رہ جاتی ہے ۔تکنیکی طور پر 25جولائی کو ہونے والے انتخابات کے ذریعے ان کے اقتدار میں آنے میں قریباً تمام رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں ۔اب انھیں صرف اپنے الیکٹ ایبل امیدواروںکو الیکشن جتوانا ہے ،باقی پوں بارہ نہیں تو پھر تین کانے ،کیونکہ پھر بھی الیکشن الیکشن ہی ہوتا ہے ،دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کے درمیان رابطے بحال ہو رہے ہیں۔چند روز قبل جب میں نے زرداری صاحب کا انٹرویو کیا تو انہوں نے بھی عام انتخابات کے بعد ان رابطوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا تھا۔