مصر اور شام میں ایوبی سلطنت کی بنیاد رکھنے والا صلاح الدین ایوبی کامونکی کے صلاح الدین ایوبی سے ا س لئے مختلف ہے کہ وہ پنجاب پولیس کے ہتھے نہیںچڑھا ۔اگر اس دور میں پنجاب پولیس ہوتی تو نہ صلیبی جنگوں کی تاریخ ہم پڑھ رہے ہوتے اور نہ ہی اس عظیم فاتح کے کارناموں پر اترا رہے ہوتے بلکہ ہاتھ میں عرضی پکڑے فریاد کر رہے ہوتے کہ ہمارے صلاح الدین ایوبی کا پوسٹ مارٹم غیر جانبدار ڈاکٹر سے کرا دو اور ہمیں رپورٹ بھی دیدو تا کہ ہمیں یہ تو پتہ چلے کہ اس جسمانی طور پر مکمل صحتمند نوجوان کا دل کیسے اچانک دھڑکنا بند کر گیا۔اسکے ذہنی توازن میں تو خرابی تھی ہی لیکن اسکو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کی ذہنی پسماندگی کے ساتھ ساتھ ایک بے حسی بھی کارفرما ہے اسکی مصدقہ رپورٹ بھی چاہئیے، جس نے کتنے صلاح الدین کھائے ہیں اور مزید کھانے کا ارادہ ہے۔ کیونکہ ارباب اختیار تو کمیشن اور کمیٹیوں کے چکر میں اس سارے معاملے کو گول کر جائیں گے جیسے انہوں نے ساہیوال والا کیا تھا۔لیکن ایک بات ضرور ذہن نشین کر لیں اگلا نشانہ کوئی حکمرانوں کا پیارا بھی ہو سکتا ہے۔ ساہیوال کے واقعے کے بعد میرے جیسے بزعم خود بہت دلیر لوگ بھی شدید خوف کا شکارتھے۔ رات کو لیٹ دفتر سے گھر جاتے ہوئے پولیس کی گشت کرتی ہوئی گاڑی کی فلیش لائٹس دیکھ کر میں دور سے ہی راستہ تبدیل کر لیتاکہ کیا خبر کسی نے انکو دہشت گرد کے اسلام آباد کی سڑکوں پر سفر کرنے کی اطلاع دی ہو اور وہ اپنی بندوقیں لوڈ کئے اسے ڈھونڈتے پھر رہے ہوں۔ اتنا موقع تو وہ دیں گے نہیں کہ میں اپنے صحافی ہونے کا رعب ان پر ڈال سکوں۔ ہر رات گھر پہنچ کر اللہ کا شکر ادا کرتارہا۔دوسری ایسی خوفناک وارداتوں کی طرح اس واردات کا خوف بھی ذہن سے اتر گیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی والا سانحہ ہو گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان ایسی صورتحال سے دوچار رہا ہے جہاں یہ فکر ضرور ہوتی تھی کہ کہیں کوئی بم دھماکہ، دہشت گردی کا واقعہ ہوسکتا ہے، احتیاط کس طرح کی جائے۔ لیکن دہشت گرد تو دشمن تھے ان سے کیا بعید ہو سکتا ہے۔پولیس یا انسداد دہشت گردی فورس تو دشمنوں کی نہیں ہے وہ تو دہشت گردوں سے عوام کو تحفظ دینے کے لئے بنائی گئی ہے۔لیکن یہ کیا کہ وہی عوام کی جانوں کے درپے ہے۔ خدا کرے ساہیوال اور صلا ح الدین جیسے واقعات کو حکومت روکنے میں کامیاب ہو جائے جس کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ہماری پولیس کی بنیاد جو کہ برطانوی راج میں رکھی گئی تھی وہی ٹیڑھی ہے۔ ُ زمین پر قبضہ ہو جانے کا خوف، اغواء برائے تاوان کا خوف، ڈاکے کا خوف، پولیس کے ہاتھوں رسوائی اور پولیس مقابلے کاخوف۔ایسی فورس جو عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے بنائی گئی وہی عوام کے جان و مال کی دشمن ہو گئی ہے ۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پولیس کی چھترول تو مشہور تھی کہ انکے ہاتھ کوئی ملزم آ جاتا تو پھراسے کردہ نا کردہ سارے جرائم کا اعتراف کئے ہی بنتی تھی۔ لیکن پولیس تشدد سے موت کا واقعہ کبھی سننے میں نہیں آتا تھا۔اب تو آئے دن ایسے واقعات ہو رہے ہیں اور کو ئی عوام کا پر سان حال نہیں۔پولیس کو اس وقت ماورائے عدالت قتل یا پولیس مقابلے کی لت نہیںپڑی تھی۔ ویسے بھی اسکی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور خصوصاً میاں شہباز شریف کی حکومت سے پہلے اس بارے میںشاذونادر سننے میں آتا تھا لیکن پھر عابد باکسر نامی شخص پولیس افسر بنا اور پولیس مقابلے روزانہ کا معمول بن گئے۔اس زمانے میں اسلام آباد میں صحافت کا آغاز کر چکا تھا۔ وفاقی دارالحکومت میں اس بارے میں اتنی تشویش نہیں محسوس ہوتی تھی لیکن جب کبھی لاہور کے دوستوں سے ملاقات یا گپ شپ کا موقع ملتا تو اس بارے میں بہت پریشان دکھائی دیتے کیونکہ اس کی آڑ میں بہت سے ذاتی دشمنیوں کے بدلے بھی لئے جا رہے تھے اور کسی کو ہمت نہیں تھی کہ اس بارے میں سوال کر سکے۔جنرل مشرف کے دور میں اس بارے میں نوٹس لیا گیا اور شہباز شریف اور عابد باکسر اس بارے میں جوابدہی کے قابل ٹھہرے لیکن ہوا کچھ نہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے اس بارے میں پھر ہنگامہ شروع ہوا لیکن ابھی تک معاملہ کسی طر ف جاتا دکھائی نہیں دے رہا۔ انسانی جانوں کے ضیاع کا یہ معاملہ صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ پولیس مقابلے میں بے گناہ ہلاکتوںکامعاملہ گزشتہ سال ایک بار پھر بڑے زوروشور سے اٹھا جب نقیب اللہ محسود کا قتل ہوا اور سندھ حکومت کے چہیتے رائو انوار کے قصے کھلنے لگے۔ اسکی تو رپورٹ بھی آ گئی ہے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ عابد باکسر اور رائو انوار کے معاملے میں ایک قدر مشترک یہ ہے کے انکے حمایتی انہیں دہشت گردوں کے خلاف ایک موئثر ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ اور یہ ہتھیار اس وقت تیار کرنے شروع کئے گئے جب حکومتوں اور اداروں کو فرقہ وارانہ دہشت گردی اور کراچی میںسیاسی مخالفین کا قتل عام کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے قانون کاراستہ مشکل نظر آیا۔نظام کو چلانے کے لئے ایک ایسے راستے کو منتخب کیا گیا جس میں رائو انوار اور عابد باکسر تو پیدا ہوتے رہیں گے لیکن قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہو پائے گی۔ پولیس مقابلہ ہی نہیں بلکہ پولیس کی تحویل میں تشدد سے اموات ہوتی آ رہی ہیں۔ اس بارے میں جب عدلیہ نے نوٹس لینا شروع کیا توپولیس والوں نے اپنے پرائیویٹ سیف ہائوسز قائم کر لئے جہاں پر انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے اور آئے دن آپ لواحقین کی فریاد سنتے ہونگے کہ انکے کسی عزیز کی پولیس تشدد سے موت واقع ہو گئی ہے جس کو کور اپ کرنے کے لئے پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کی مدد کو نکل پڑ تی ہے۔ایک خاص قسم کے ماحول میں رہتے رہتے پولیس کا ایک خاص مزاج بن چکا ہے۔عام عوام کے لئے انکے دلوں میں احترام اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔جب با اثر سیاستدان اور افسر اپنی مرضی سے انکی تعیناتیاں کرینگے تو عوام سے زیادہ انکی خوشنودی اہم ہو گی۔ اسکے تدارک کا راستہ پولیس کو مکمل غیر سیاسی بنانا،اداروں کا استحکام، انکی عوام کے نظر میں پختہ ساکھ، پیشہ ور پولیس فورس اور موئثر عدالتی نظام ہے۔