لاہور میں ایک حکیم صاحب مطب کیا کرتے تھے۔ ہر مرض کا علاج، وہ بالغذا کرتے اور غذا بھی صرف دیسی گھی! اظہر سہیل مرحوم مزاحاََ کہتے تھے "کوئی شخص جْوتی ٹْوٹنے کی بھی شکایت کرے، تو اس کا علاج حکیم صاحب دیسی گھی تجویز کرتے ہیں!"۔ ان حکیم صاحب کی تصویر، آج بھی آنکھوں میں ہے۔ پْرانے لاہور میں، اسی برس کے یہ بزرگ، ٹیک کے بغیر بیٹھے ہوے نظر آ رہے ہیں۔ دھان پان آدمی، بْوٹا سا قد۔ لیکن رنگت سْرخ و سفید اور چہرا نہایت روشن اور چمک دار۔ ان کی پوری شبیہ، دِل میں کھْب کر رہ گئی۔ دیکھنے میں وہ خود بھی، دیسی گھی کا اشتہار لگتے تھے! حکیم صاحب کہا کرتے تھے کہ انسان جو کچھ کھاتا ہے، ویسا ہی بنتا جاتا ہے۔ یہ بیس سال پہلے کی باتیں ہیں۔ زمانے کی گردش، سْنا ہے یہاں بھی پھِری اور حکیم صاحب کا انتقال ہو گیا۔ خدا مغفرت کرے۔ حکیم صاحب کا فقرہ مستعار لے کر، کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم کا معاملہ بھی، غذا جیسا ہے۔ پڑھائی، اور خصوصا بچپن کی پڑھائی، بہت دْور تک جاتی ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں۔ عِلم را بَر دِل زنی، یاری بود عِلم را بَر تَن زنی، ماری بود یعنی، علم دل میں بیٹھے گا، تو ساری عْمر راہنمائی کرے گا۔ صرف تن پروری کے لیے حاصل کردہ علم، سانپ کی طرح ڈستا ہی رہے گا! بڑا المیہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت، تین یکسر مختلف نظام ِتعلیم ہیں۔ ایک سے لکیر کے فقیر پیدا ہو رہے ہیں، دوسرا چوں چوں کے مربے تیار کر رہا ہے، اور تیسرا صرف روبوٹ ڈھال رہا ہے! جدید علوم میں آگے نکلے ہوئے مْلکوں میں، شتر گربگی کی ایسی کوئی مثال مِلتی ہے؟ دیوانگی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ایک ہی تجربہ بار بار کرنا اور ہر دفعہ، مختلف نتیجے کی توقع رکھنا! سوچیے کہ ہم بھی اس دیوانگی میں، کب سے مبتلا ہیں؟ حد یہ ہے کہ دو چار جْملے سْن کر، بتایا جا سکتا ہے کہ بولنے والا، "کہاں" سے بول رہا ہے! کلاس ازم سے چھْٹکارا پانا محال ہے۔ امیر اور غریب کی تفریق بھی ختم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن غضب ہے کہ تعلیمی پس منظر بھی، ایک کے دماغ میںخناس بھرتا اور دوسرے کو نکو بنا کر رہتا ہے! یہ تعلیم پا کر، نہ آئن سٹائن پیدا ہوں گے، نہ علامہ اقبال اور نہ امام غزالی! ادھوری اور ناقص تعلیم پانے والوں کا حال وہی ہے کہ درمیان ِقعر ِدریا، تختہ بندم کردہ ای باز می گوئی کہ "دامن تَر مَکْن، ہْشیار باش!" تختے سے مجھے باندھ کر، عین سمندر کے بِیچ پھینکتے ہو اور کہتے ہو کہ ہشیار! دامن بھی تَر نہ ہونے پائے! کیا ممکن نہیں کہ یہ تفرقہ مٹا کر، کم از کم، پہلی پانچ جماعتوں کے لیے، یکساں نظام تیار کیا جائے؟ مگر ہو کیسے؟ یہاں تو اب تک یہ بھی طے نہیں ہوا کہ ہماری اپنی بھی کوئی زبان ہے یا نہیں! بھٹو مرحوم نے، جن کی ذہانت اور دْوراندیشی کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور جنہیں اْردو، وزیر بننے کے بعد سیکھنا پڑی، یہ زبان اپنی اولاد کو نہیں سکھائی۔ پھر ان کی صاحبزادی بھی، وزیر ِاعظم بننے کے بعد ہی، قومی زبان کی طرف متوجہ ہوئیں۔ بھٹو کے نواسے بلاول بھی، اب اسی مشق سے گْزر رہے ہیں۔ دعویٰ سبھوں کا یہ رہا کہ عوام کا دْکھ درد، ہم سمجھتے ہیں! شاعر نے شکایت کی تھی کہ زبان ِغیر سے شرح ِآرزو کیسے کروں؟ افسوس کہ یہاں عوام کو صرف ڈھکوسلے دینے کے لیے، قومی زبان سیکھی جاتی ہے! نئے پاکستان میں، اونٹ کی اگر صرف یہ ایک تعلیم کی کَل سیدھی کر دی جائے، تو بہت کچھ سیدھا ہو جائے گا۔ بقول ِلسان العصر دِل بدل جائیں گے، تعلیم بدل جانے سے ٭٭٭٭٭ شاعروں کی نقادی اچھا شاعرعموما نقاد اچھا نہیں ہوتا اور بْرا شاعر اَور بھی بْرا! کْلیہ نہ سہی، قاعدہ البتہ یہی ہے۔ ہاں! شعر کی ظاہری کیفیات، یہ دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔ مثلا، شعر کون سی بحر میں ہے، زمین کِس کی ہے؟ فلاں حرف گِر رہا ہے یا نہیں، عروض کے حساب سے بھی، ٹھیک ہے؟ ایطا کیا ہوتی ہے اور تعقید کس بَلا کا نام ہے وغیرہ وغیرہ۔ بھْول کر بھی، یہ نہ پْوچھیے گا کہ فلاں صاحب کیسے شاعر ہیں؟ اور کسی شعر کے محاسن تو بالکل نہ دریافت کیجیے! ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی یہ تاریخ، بہت پرانی ہے۔ مولانا رْومی نے عاجز آ کر کہا تھا کہ مَن ندانم فاعلاتن فاعلات شعر می گویم، بِہ از آبِ حیات یعنی، "فاعلاتن فاعلات" تمہیں مبارک رہے۔ معنوی اعتبار سے میرے شعر، البتہ آب ِحیات ہیں! میر، خواجہ درد کو آدھا اور سوز کو پائو بھر شاعر کہتے تھے۔ غالب میر کو "اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا" کہہ کر نیچا کرتے ہیں۔ اپنے تعیں شیخ علی حزیں کی صف میں بٹھاتے ہیں! یہ سْن کر، مومن نے کہا تھا کہ ہاں! ہم بھی آپ کو حزیں کے برابر سمجھتے ہیں۔ یعنی، آپ تو ہوے حزیں کے برابر، اور میں آپ سے بھی اونچا! حَد یہ ہے کہ گلستان جیسی کتاب، جس کا جواب دینے سے، عالمی شعر و ادب قاصر ہے، مومن کے نزدیک "گفت، گفت اور گفتہ اند، گفتہ اند" کا پلندہ تھا! زیادہ پْرانی بات نہیں، جب اثر لکھنوی مرحوم اور فراق گورکھپوری کے مابین، گھْمسان کی جنگ ہوئی تھی۔ لْطف کی بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کی شاعری کے بارے میں، دونوں کی رائیں درست تھیں! حقیقت میں، اثر اور فراق، مِل کر پورا شاعر بنتے ہیں! اسی طرح، مولانا ماہر القادری نے، فیض کی شاعری پر اپنے معرکتہ الآراء تبصرے میں، ان کے سارے کلام کو، اْڑا کر رکھ دیا تھا۔ لیکن خود مولانا کی اپنی غزلوں کا اسلوب اتنا بوسیدہ تھا کہ یہ بھی اْڑ کر رہیں۔ کہنا چاہیے کہ زبان پر قدرت، مولانا کے حصے میں آئی اور خیال اور انداز کی رعنائی، فیض صاحب کے۔ یہ خوبیاں ایک میں ہوتیں تو اردو کو چوتھا بڑا شاعر ہاتھ آ جاتا! سوال یہ ہے کہ شاعر کسی دوسرے کو، تسلیم کیوں نہیںکرتے؟ اس کی دو وجہیں ہیں۔ پہلی یہ کہ شاعروں کی نگاہ، یک رْخی ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو، تو اپنے کلام میں فلاں اور فلاں شعر بلکہ پوری پوری غزلیں، باقی کیوں رہنے دیں؟ اور دوسری بات وہی کہ ع ہم پیشہ ہم پیشہ را، دشمن است