میرا ایک بچہ تین اور دوسرا ایک برس کا تھا جب میں نے خود کو اس سوال کے روبرو پایا کہ مجھے اپنی ساری زندگی ان بچوں کے لئے سرمایہ کمانے میں لگانی چاہئے یا خود انہیں سرمایہ بنانے کے لئے اپنی زندگی وقف کردینی چاہئے ؟ اس کا سادہ سا مطلب یہ تھا کہ اگر ان سے متعلق میری ذمہ داری یہ ہے کہ مجھے ان کے لئے کمائی کرنی ہے تو پھر پیسہ میری ترجیح ہونا چاہئے۔ اور ترجیح بھی ایسی کہ اس کی راہ میں اگر یہ بچے بھی حائل ہوں تو میں ان کی بھی پروا نہ کروں۔ یعنی نہ تو میں بچوں کو وقت دوں، نہ جی بھر کر پیار اور نہ ہی روزانہ کی توجہ۔میری توجہ کا محور بس پیسہ اور صرف پیسہ ہی رہے۔ دوسری صورت میں ترجیح پیسے کو نہیں بلکہ اولاد کو حاصل تھی۔ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ تب فیصلہ بچوں کے حق میں کیا۔ اس فیصلے کا پہلا نتیجہ دیکھئے ! میری محدود سی آمدنی میں کوئی قابل ذکر بچت صرف اس صورت میں ہوسکتی تھی کہ میں کسی ایسے محلے میں رہائش اختیار کرتا جس کے باشندوں کی اخلاقی حالت سے پناہ مانگنا واجب ہوتا ہے۔ میری مراد وہ محلے ہیں جہاں بڑوں اور چھوٹوں کی تفریق کے بغیر چوری چکاریاں اور گالم گلوچ جیسی عادتیں عام ہوتی ہیں۔ بات بات پر ہاتھ گریبانوں تک چلے جاتے ہیں اور خواتین جس کی گلیوں سے تیز تیز گزرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ سلجھے ہوئے لوگوں کے محلے میں رہنے کے لئے لازم تھا کہ میں اپنی آمدنی میں بچت سے دستبردار ہوجاتا۔ چنانچہ اللہ کا نام لے کر یہی کیا۔ رہائش ہمیشہ اچھے ماحول والے متوسط طبقے کے محلوں میں رکھی۔ اسی حوالے سے ایک اہم فیصلہ یہ کیا کہ پہلے محلے اور مکان میں گیارہ سال گزارے، جس سے بچوں کا بچپن پوری یکسوئی کے ساتھ گزرا۔ جبکہ دوسرے محلے اور مکان میں آٹھ سال گزار دئے جس سے ان کا لڑکپن یکسو رہا۔ یوں ان کی حیات میں محلہ، ماحول اور دوست بار بار تبدیل نہیں ہوئے جو ان کی شخصیت سازی کے لئے بہت اہم بات تھی۔ بچوں کے پورے دن کا شیڈول ترتیب دیدیا گیا تھا جس میں کسی بھی صورت اونچ نیچ کی اجازت نہ تھی۔ گھر میں کچھ اصول لاگو کردئے تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ کھیل کود سے فارغ ہوکر مغرب کی اذان کے دوران بچوں کو گھر میں داخل ہوجانا چاہئے۔ ایک اور اصول یہ لاگو کیا کہ رات کا کھانا سب اکٹھے بیٹھ کر کھائیں گے۔ اس اصول نے سب سے زیادہ مجھے ہی متاثر کیا کیونکہ اگلے بیس برس تک شہر میں موجود ہونے کی صورت میں مجھے رات کا کھانا ہمیشہ گھر پر ہی کھانا پڑا۔ تقریبات یا دوستوں کی دعوتوں میں شرکت مہینے میں ایک بار ہی کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے عرصے میں دوستوں کی رات کی محفلوں میںبہت ہی محدود طور پر شریک ہوا۔ صبح سات بجے بچے سکول چلے جاتے، ظہر کے بعد وہ سوجاتے، عصر میں وہ کرکٹ وغیرہ کھیلتے، مغرب کے متصل بعد ان کا ہوم ورک ہوتا اور رات نو بجے کے بعد ویک اینڈ کے سوا بچوں کو جاگے رہنے کی اجازت نہ تھی تو ایسے میں میرے لئے مغرب اور عشاء کے مابین رات کے کھانے کا ہی وقت تھا جس میں بچوں سے قدرے تفصیلی گفتگو ہو سکتی تھی سو یہ وقت دوستوں کی محفلوں پر کیسے لٹا دیاجاتا ؟ رات کا کھانا ساتھ کھانے کا فیصلہ بظاہر بہت سادہ سا لگتا ہے مگر اثرات اور نتائج کے معاملے میں یہ اتنا سادہ ہے نہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بچے تو ویسے بھی اپنی دن بھر کی دلچسپ باتیں شیئر کرنے کے لئے ہمہ وقت بیتاب رہتے ہیں، جس میں ایک دوسرے کی معصوم سی شکایات بھی شامل ہوتی ہیں۔ رات کے کھانے پر روزانہ ان کی یہ گفتگو سنتے ہوئے آپ کو بخوبی اندازہ ہو رہا ہوتا ہے کہ بچوں کا آج کا دن کیسا گزرا ؟ کہیں ان کی زندگی میں کوئی ایسا دوست تو داخل نہیں ہوگیا جس سے یہ برا اثر لے رہے ہوں ؟ ان کی سرگرمیاں مثبت ہیں یا منفی ؟ یہ سکول اور ٹیچرز سے کس قسم کا اثر لے رہے ہیں ؟ غرضیکہ دسترخوان پر بچوں کی گفتگو درحقیقت ان کی روزانہ کی تعلیمی و اخلاقی رپورٹ ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی مدد سے یومیہ کارگزاری بھی روز کے روز سامنے آتی چلی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اگر خدا نخواستہ آج ہی بچہ کسی برائی کے زیر اثر آ بھی گیا تو آج ہی معاملہ آپ کے علم میں بھی آگیا اور آج ہی اس کا حل بھی نکال لیا گیا۔ رات کا کھانا ساتھ کھانے کی اس پابندی کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایسے ماں باپ اور اولاد کے مابین کبھی فاصلے پیدا نہیں ہوتے۔ اپنے بچوں کے ساتھ آپ کی مستقل قربت بنی رہتی ہے جس سے ایک بہت ہی اچھا دوستانہ ماحول قائم ہوجاتا ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ تربیت کے معاملے میں بہت بڑی بڑی غلطیاں خود والدین کرتے ہیں اور نتائج اس کے بچوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ مثلاً ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ سچ خیر اور جھوٹ شر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سچ میں فائدہ اور جھوٹ میں نقصان ہے۔ ہم بچے کو نصیحت کے طور پر تو یہی سکھاتے ہیں کہ سچ میں فائدہ اور جھوٹ میں نقصان ہے۔ لیکن جب بچے کی کوئی شکایت آجائے اور ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ بتائے، کیا آپ نے فلاں حرکت کی ؟ ہوتا یہ ہے کہ بچہ جوں ہی سچ بول دیتا ہے باپ یا ماں کا زناٹے دار تھپڑ اس کا گال لال کر دیتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں، آپ کے آتشیں تھپڑ کی حرارت سہلاتا بچہ کیا سوچ رہا ہوتا ہے ؟ وہ سوچتا ہے ، سچ میں ’’نقصان‘‘ ہے اور جھوٹ میں ’’فائدہ‘‘ ہے۔ چنانچہ یہیں سے جھوٹ اس کی زندگی کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ الحمدللہ میرے بچوں کو زندگی میں کبھی بھی سچ کا ’’نقصان‘‘ نہیں ہوا۔میرا یہ تجربہ ہے کہ اٹھارہ برس کی عمر تک بچے کو بھرپور توجہ دی جائے تو اس کے بعد آپ اسے فری چھوڑ دیجئے، اللہ کے فضل سے معاشرے کو اس سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ میں پچاس برس کی عمر میں بچوں کی ذمہ داری سے فارغ ہوچکا۔ اب باقی زندگی کچھ کتابیں لکھنی ہیں اور وہ شوق پورے کرنے ہیں جو بچوں کی تربیت میں مشغولیت کے سبب رہ گئے اور پھر اطمینان سے فوت ہونا ہے !