نواز شریف کی بیماری پر مسلم لیگ کے لیڈر پہلے تو چپ رہے‘ پھر ایک ایک کر کے بولنے لگے اور اب سنا ہے کہ وہ بھی بولنے والے ہیں جو اب تک چپ تھے۔ اب تو دوسری جماعتیں بھی تشویش اور ہمدردی ظاہر کرنے لگی ہیں۔ شہباز شریف اور ان کے صاحبزدے البتہ (بعض لوگوں کے نزدیک پراسرار طور پر) خاموش ہیں اور امکان ہے کہ خاموش ہی رہیں گے۔ ایک آدھ بیان انہوں نے ضرور دیا لیکن علامتی طور پر اور احتیاط کی ساری شرطیں پوری کرتے ہوئے ۔ افواہیں تو ایک مدت سے ہیں کہ ان کی ’’معاملہ بندی‘‘ ہو چکی ہے یا ہو رہی ہے۔ گزشتہ رات ایک چینل پر سینئر مدیر اور تجزیہ کار نے اپنی خبر میں ان افواہوں کی قدرے تصدیق کر دی۔ کچھ ذرائع کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ معاملہ طے ہے اور عمران کی ناکامی کی صورت میں انہیں آگے لایا جائے گا۔ مدیر موصوف کی شہرت ہے کہ خبر پوری ذمہ داری سے دیتے ہیں۔ پہلے صحت کا یقین کر لیتے ہیں۔ گویا ان کی دی گئی اطلاع درست مان لینی چاہیے۔ اب اس اطلاع کی ایک تشریح ہے اور پھر اس کے اندر سے پھوٹتا ہوا ایک سوال۔ تشریح یہ ہے کہ ہمارا دیس باقی دنیا کے برعکس ہے۔ کون حکمران ناکام ہوا‘ اس کا فیصلہ باقی سب جگہ عوام کرتے ہیں‘ حکمران کی جگہ کسے لایا جائے۔ یہ فیصلہ بھی باقی دنیا میں ووٹر ہی کرتے ہیں‘ ہمارے ہاں یہ فیصلہ بھی کوئی اور ہی کرتا ہے، سوال یہ ہے کہ نواز‘ شہباز دونوں ہی آل شریف گنے جاتے ہیں۔ دونوں پر الزامات بھی ایک جیسے ہیں یعنی میگا کرپشن کے الزامات۔ الزام کوئی نواز شریف پر ثابت ہو سکا نہ شہباز پر۔ دونوں ایک ہی جماعت کے لیڈر ہیں۔ اتنا کچھ ایک ہے تو پھر یہ امتیاز کیوں کہ ایک دائرہ مقبولیت کے اندر‘ دوسرا باہر۔ ایک کو سزا ہو گئی‘ دوسرے کو نہ ہوئی نہ ہونے کا امکان ہے۔ کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ دونوں نے ترقی کے میگا پراجیکٹ شروع بھی کئے اور مکمل۔ لیکن برادر بزرگ کے ترقیاتی منصوبوں نے خارجہ پالیسی کا قبلہ بدل ڈالا۔ برادر خورد کے منصوبے خارجہ پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوئے۔ ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے۔ دوسری وجہ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ ہو سکتا ہے جو بڑے بھائی نے لگایا‘ چھوٹے نے نہیں لگایا۔ اس ضمن میں بڑے بھائی کو کسی خلائی مخلوق کی دراندازی کا شکوہ رہا ہے‘ چھوٹے بھائی ایسی کسی مخلوق کے وجود سے لاعلم ہیں بلکہ منکر۔مزے کی بات ہے‘ چھوٹے بھائی خلائی مخلوق کا وجود نہیں مانتے لیکن اس کے ’’حق حاکمیت‘‘ کو تسلیم کرتے ہیں اور بڑے بھائی کو بھی سمجھاتے رہتے ہیں کہ وہ بھی سرتسلیم خم کر دیں۔ بہرحال‘ اب سخن گسترانہ بات’’انتظار‘‘ والے مقطعے میں آ پڑی ہے۔ ’’ناکافی‘‘ کا اعتراف تو سب کر چکے‘ بس مجاز اتھارٹی کی طرف سے اعلان کا انتظار ہے اور انتظار پر شہباز کی دنیا قائم ہے۔ برادر بزرگ کے ساتھ قسمت جو بھی کرے‘ شہباز اس پر صبر کر لیں گے اور صبر سے زیادہ شکر کر لیں گے۔ ٭٭٭٭٭ کیا خوب فرمایا وزیر اعظم نے کہ ان کی حکومت نے غریبوں کو اوپر اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ گویا غریبوں کی سنی گئی‘ دعائیں کر رہے تھے کہ ’’اے مالک ہمیں اوپر اٹھا لے‘‘ مالک نے کرم کیا‘ اوپر اٹھانے والا بھیج دیافرمایا غربت ختم کر دیں گے۔ غربت کو ختم کرنے کا قابل عمل طریقہ اوپر اٹھانے والے کے پاس ہے‘ یہ کہ غریب کو ہی ختم کر دو۔ غریب ختم تو غربت بھی ختم۔ جب بانس ہی نہ رہے گا تو غربت کی بانسری کیسے بجے گی۔ ساڑھے پانچ سو ارب روپے کے ٹیکس لگے ہیں تو یہ غربت ختم کرنے کے لئے پہلا ٹھوس قدم ہے۔ دوسرا ٹھوس قدم جون میں آئے گا اور سنا ہے یہ سنگ میل ہو گا۔ برطانوی جریدہ اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ مہنگائی مزید بڑھے گی۔ ساتھ ہی خبر آئی کہ بجلی کے نرخ میں مزید ایک روپہ پچاس پیسے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ اس سال زرعی پیداوار بھی کم ہو گی۔ اس کا سہرا بھی جہاں مہنگی بجلی کے سر ہے وہاں کھاد بھی ہے جو سات ماہ میں لگ بھگ ہزار روپے فی بوری مہنگی ہو چکی ہے۔ آبیانے کی شرح میں بھی ہوش ربا اضافہ ہو گیا۔ زرعی پیداوار کم ہو گی اور جو ہو گی وہ اتنی مہنگی ہو گی کہ اسے خریدنے والے کم‘ دور ہی سے نظارہ کرنے والے زیادہ ہوں گے۔ زراعت میں یہ ’’پیشرفت‘‘ بھی غربت میں کمی کے لئے اہم کردار ادا کرے گی۔ سنا ہے‘ زراعت کو اسی طرح کی ’’ترقی ‘‘ دینے کے لئے اسد عمر مزید فارمولے بنا رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک حکومتی وزیر نے فرمایا‘ کرپشن سے ترقی کے راستے میں رکاوٹ آئی ہے۔ صحیح فرمایا ‘ کرپشن بری شے ہے۔ کرپٹ عناصر نے لاہور میں میٹرو بنائی۔ پورے تیس ارب روپے خرچ ہو گئے۔ ایمانداروں نے صرف ایک کھرب 20ارب روپے میں پشاور میٹرو بنا کر دکھا دی۔ مطلب تقریباً بنا کر دکھا دی۔ تھوڑا بہت کام رہتا ہے۔ چالیس پچاس ارب مزید مل جائیں تو وہ بھی ہو جائے گا اور ایمانداری کے ڈنکے بج اٹھیں گے۔ ایمانداری نے پختونخواہ کو دیکھو کیسے گل و گلزار بنا دیا۔ پنجاب میں کرپشن تھی‘ کیسا اجاڑ کھنڈ بنا پڑا ہے۔ ٭٭٭٭٭ بھارتی اپوزیشن نے کہا ہے قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ بھارت کو مہاتما گاندھی کا ملک بنانا ہے یا نتھو رام گاڈسے کا۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اس سوال کو لے کر بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں۔ سوال بہت ہی قابل تعریف ہے لیکن آزادی کے بعد طویل عرصے تک کانگرس کی حکومت رہی اور گاندھی کی سوچ پر کم‘ نتھو رام گاڈسے کے ’’فلسفے‘‘ پر زیادہ عمل کیا۔ نام البتہ وہ گاندھی ہی کا لیتی رہی۔ ایک ویڈیو تو بہت سے لوگوں نے دیکھی جس میں بی جے پی گجرات کا ایک لیڈر گاندھی کو گالیاں دے رہا تھا۔ کانگرس اگر گجرات میں ’’گاڈسے‘‘ حکومت نوٹس شروع ہی میں لے لیتی تو بات اتنی نہ بڑھتی۔ چڑیاں کھیت چگ گئیں تو ہوش میں آئی‘ اب فائدے کی کم ہی امید ہے۔