کسی معاملے پر سب کی رائے ایک نہیں ہو سکتی۔ اس کو نقطہ نظر کا اختلاف کہتے ہیں۔ اب اس نقطے ہی کو لے لیجیے اور تین دن پہلے کی بات ہے‘ ایک ٹی وی پر کسی صاحب کے بیان کا ٹکر ان الفاظ میں چلا کہ فلاں ایشو پر ہمارا نکتہ نظر یہ ہے۔ یعنی دیکھ لیجیے‘ اس پر بھی اختلاف ہو گیا کسی کا ’’نقطہ نظر ‘‘ہے تو کسی کا ’’نکتہ نظر‘‘۔ انگریزی میں لکھئے تو یوں کہیں گے کہ فلاں کا ’’پوائنٹ آف ویو‘‘ یہ ہے اور فلاں کا’’ ڈاٹ آف ویو‘‘ اس طرح ہے۔ خیر‘ کہنے کی بات یہ تھی کہ ایک مبصر صاحب نے لکھا‘ پاکستان حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے ہر آنے والے دن ایک خطرناک کھائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس پر ایک منصف مزاج نے اپنے نقطے یا نکتے کا یوں اظہار کیا کہ غلط بات ہے‘ حکومت کوئی غلطی نہیں کر رہی‘ غلطی تو کھائی کی ہے جو خواہ مخواہ ہر آنے والے دن کے ساتھ پاکستان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ منہ کی کھائے گی حکومت کا کچھ بگاڑ نہ پائے گی۔ نقطہ نظر شاید غیر سنجیدہ ہو گیا۔ سنجیدہ بات ایک نہیں‘ بہت سی ہیں لیکن ایک ان میں سے یہ ہے کہ اے ایف پی کے اقتصادی جائزے کے مطابق پاکستان کی شرح افزائش (گروتھ ریٹ)2.2ہو گئی ہے۔ ابھی دو اڑھائی ماہ پہلے اقتصادی ماہرین تشویش ظاہر کر رہے تھے کہ شرح افزائش بہت کم رہ گئی ہے اور 3.7پر آ گئی ہے۔ کیا بنے گا اور دو اڑھائی ماہ ہی میں یہ بن گیا کہ وہ مزید کم ہو گئی۔ بننے کا عمل اسی طرح رہا تو سوچنے کی بات ہے کہ آخر کیا بنے گا۔ حکومت سارے ازالے لوگوں سے چھینا جھپٹی کر کے کرنے پر تلی ہے لیکن جب لوگوں کے پاس کچھ چھنوانے گنوانے کے لئے کچھ نہیں رہے گا تو پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا بنے گا۔ تجارت اور بزنس بڑھانے کے سارے راستے حکومت ایک ایک کر کے بند کئے جا رہی ہے اور پھر اس پر فخر کر رہی ہے کہ دیکھو عوام نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ یعنی عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ لیکن یہاں پھر وہی سوال ہے کہ عوام کے پاس دینے کو ردعمل کے سوا کچھ نہ رہا تو پھر کیا بنے گا۔ ٭٭٭٭٭ حکومت نے اچھا کام کیا کہ روٹی نان کی قیمت پرانی سطح پر بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ ایک ہفتہ پہلے تک تمام حکومتی ترجمان ان خبروں کی تردید کر رہے تھے کہ روٹی اور نان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ جب قیمت بڑھی ہی نہیں تو پھر وفاقی کابینہ نے آخر کس پرانی قیمت کی بحالی کا حکم دیا ہے؟ ترجمانوں کو جواب دینا چاہیے۔ بے شک سارے ترجمان نہ بولیں‘ ڈیڑھ دو سو ہی وضاحت فرما دیں کافی رہے گی۔ ٭٭٭٭٭ پرانی قیمت پر واپسی سے یادآیا ‘ کئی مہینے پہلے حکومت نے دوائوں کی قیمتیں بڑھا دی تھیں کچھ کی قدرے کم بڑھی تھیں لیکن زیادہ تر کی سو فیصد اور بعض کی دو سو فیصد سے بھی زیادہ بڑھ گئی تھی۔ پھر حکومت نے اپنے اس فیصلے کا نوٹس لیا اور دوائوں کی پرانی قیمتیں تقریباً بحال کرنے‘ یعنی صرف دس فیصد اضافہ لاگو کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کا کیا بنا؟ کل ہی کی خبر ہے کہ بیشتر دوائیں دو سو فیصد سے بھی زیادہ مہنگی فروخت ہو رہی ہیں اور دھڑلے سے فروخت ہو رہی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مولانا فضل الرحمن کے مذہب کارڈ استعمال کرنے کے خلاف بعض وزیروں کے بیانات آئے ہیں۔ صرف وزیر ہی نہیں انصاف پسند تجزیہ کار بھی گویا ہوئے ہیںاور فرمایا ہے کہ ناموس رسالت یا ختم نبوت جیسے ایشوز کو اٹھانا ٹھیک نہیں‘ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ البتہ مطلق مذہب کا سیاست میں استعمال کیسے ممنوعہ ہو سکتا ہے؟ خود حکمران جماعت ریاست مدینہ کی خوشخبری سنا کر برسر اقتدار آئی ہے۔ جماعت اسلامی کے نام میں اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے نام میں اسلام شامل ہے۔ تحریک لبیک کے نام کے جزو یارسول اللہ ہے۔ مسلم لیگ کے نام میںمسلم کا لفظ آتا ہے ملک گیر سطح پر مجلس تحفظ ختم نبوت‘ تحفظ ناموس رسالت والوں کے جلسے معمول ہیں۔ ایک جماعت کا نام جماعت اہلسنت ہے تو دوسری کا جماعت اہلحدیث۔ کیا ان سب جماعتوں کو نام بدلنے کا حکم دیا جائے گا؟ ٭٭٭٭٭ کئی کارڈ تو پہلے ہی منسوخ ہو چکے۔ مثلاً آئین کارڈ۔ نواز شریف نے استعمال کیا تو کالعدم ہو گئے۔ مریم نواز نے یہ کارڈ چلایا تو نام ہی گم گیا۔ کسی چینل پر خبر ہے نہ کسی اخبار پر تصویر۔ جمہوریت کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو الوھی دانش رکھنے والے دلائل کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جمہوریت کفر ہے۔ روٹی کا کارڈ چلے گا؟ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے رپورٹ جاری کی ہے کہ پرویز مشرف کی حکومت جو 1999ء سے 2007ء تک رہی۔ ملک کی کرپٹ ترین حکومت تھی۔ لیکن موجودہ حکومت نے اپنی کرپشن مخالف مہم میں اسے بالکل نظر انداز کر رکھا ہے۔ نظر اندازکہا ںکر رکھا ہے بھئی‘ مشرف کو چھوڑ کر باقی کم و بیش سارے ہی وزیر پھر سے وزیر بنا دیے ہیں۔ جو کرپشن مخالف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اسے نظر اندازکرنا کہتے ہیں؟ ارے واہ! ٭٭٭٭٭ حاجی حضرات بہت غصے میں ہیں۔ مظاہرے بھی کئے ہیں۔ کہتے ہیں‘ حج دوگنا مہنگا کر دیا گیا لیکن سہولتیں ختم کر دیں۔ سو افراد کا کھانا پانچ سو افراد کو دیا جا رہا ہے‘ وہ بھی کھانے کے قابل نہیں۔ حاجی بھائیو‘ ملک پر کڑا ٹائم ہے۔ احتجاج نہ کریں‘ حکومت کے ’’بچت‘‘ اور سادگی پروگرام میں اس کا ساتھ دیں۔ کم کھائیں بلکہ سرے سے ہی کچھ مت کھائیں۔ حج قبول ہو گا۔ ٭٭٭٭٭٭