ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور طویل لیکن مدلل اور پرمغز پریس کانفرنس میں واضح کر چکے ہیں کہ افواج پاکستان اس امر کو یقینی بنائیں گی کہ انتخابات پرامن اور منصفانہ ماحول میں ہوں۔ ان کے مطابق ان اطلاعات میں بھی کوئی سچائی نہیں کہ وہ لوگ جو پارٹیاں بالخصوص مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں جا رہے ہیں، ان پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی طرف سے دباؤ ڈالا جارہا ہے اور بقول ان کے ہر الیکشن میں پارٹیاں بدلنا معمول کی بات ہے، اسی طرح الیکشن سے پہلے دھاندلی کے الزامات بھی بے بنیاد ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے سختی سے تردید کی کہ وہ کوئی خلائی مخلوق ہیں بلکہ ان کے مطابق ہم خلائی نہیں خدائی مخلوق ہیں جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں، عوام جسے ووٹ دیں گے وہی وزیراعظم ہو گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ دعویٰ کیا کہ انتخابی مہم بے خوف ہونی چاہیے اور ووٹرز سے زبردستی نہیں ہونی چاہیے لیکن ان کے رشحات فکر کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پشاورمیں عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ میں خود کش دھماکہ ہو گیا جس میں امیدوار صوبائی اسمبلی ہارون بلور سمیت 22 افراد جاں بحق ہو گئے۔ گزشتہ روزبنوں میں جے یو آئی کے رہنما اور ایم ایم اے کے امیدوار قومی اسمبلی اکرم خان درانی کے قافلے کے قریب ہونے والے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 35 زخمی ہوگئے تاہم خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے۔ اکرم خان درانی وفاقی وزیر اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق انتخابی امیدواروں کی سکیورٹی یقینی بنائی جارہی ہے اور پوری کوشش کی جارہی ہے کہ انتخابات پُرامن طریقے سے کرائے جائیں۔ ان انتہائی اندوہناک سانحات نے یکدم انتخابات کے پرامن اور خوف وہراس سے پاک ماحول میں انعقاد کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ اے این پی خاصے عرصے سے دہشت گردی کا نشانہ رہی ہے۔ ہارون بلور کے والد بشیر احمد بلور بھی 22 دسمبر 2012ء کو پشاور میں ہی اسی قسم کے خودکش حملے میں شہید ہوئے تھے جس میں 9 افراد جاں بحق ہوئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی ایک نیشنلسٹ لیکن جمہوریت پسند اور عدم تشدد کے فلسفے کی پرچارک جماعت ہے اور کھلم کھلا طالبان کے خلاف اور سیکولر نظریات کی حامی ہے۔ ہارون بلور کی شہادت پر تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ خاص طور پر اے این پی کے رہنما اور کارکن تو سخت مشتعل ہیں۔ ان کا یہ جذباتی رویہ قابل فہم ہے کیونکہ دہشت گردی کے واضح خطرات کے باوجود ریاست انھیں تحفظ فراہم کرنے میں یکسر ناکام ہوئی ہے۔ افتخار حسین اوراسفند یار ولی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ سب کچھ اے این پی کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے دہشت گردوں کی سازش ہے، تین روزہ سوگ کے بعد اے این پی دوبارہ انتخابی میدان میں اتر جائے گی لیکن دہشت گردی کاخطرہ ان کے امیدواروں کے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دہشتگردوںکو پر امن پاکستان ہضم نہیں ہوتا، شکست دیکر رہیں گے۔ یہ دعوے کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے ایک بار پھر نقش برآب ثابت ہوئے ہیں۔ ہارون بلور سانحہ کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ محض یہ کہہ کر کہ یہ سب کچھ سرحد پار افغانستان سے کیا جاتا ہے شہیدوں کے لواحقین کے زخموں پر پھاہا نہیں رکھا جا سکتا۔ یقینا اس ضمن میں سکیورٹی اداروں کو ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ان دعوؤں کہ ہم تو کچھ نہیں کر رہے کے باوجود یہ تاثر تحریک انصاف کے علاوہ ہر سیاسی جماعت میں جاگزین کر گیا ہے کہ اس مرتبہ کارندے الیکشن کو مینج کرنے کے لیے دن رات لگے ہوئے ہیں، اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ بھی بلا روک ٹوک جاری ہے اور اب تو نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ امیدواروں نے بعض اہلکاروں کے نام بھی لینے شروع کر دیئے ہیں۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلی جنس ونگ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل فیض اللہ حمید کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کو وضاحت کرنا پڑی کہ وہ لوگ جوان پر اعتراض کر رہے ہیں انھیں علم ہی نہیں کہ وہ کیا کام کرتے ہیں، یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ سوشل میٖڈیا پر پاک فوج اور ان کے کارندوں کو خواہ مخواہ سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔ اس تاثر کو محض ایک پریس کا نفرنس میں وضاحت کر کے کہ ہمارا سیاست یا سیاسی انجینئرنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے، زائل نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری پاک فوج وطن عزیز کے لیے یقینا بہت قربانیاں دے رہی ہے اور اس کے امیج کو بلند رکھنا ہما را فرض بھی ہے۔ جیسا کہ بعض عناصر کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ سرحد پار سے کرایا جا رہا ہے تو اس رجحان کی سرکوبی کرنا آخر کس کاکام ہے۔ یقینا پاک فوج کو اپنی تمام ترطاقت اور وسائل بیرونی اور اندرونی دشمن کی سرکوبی کے لیے صرف کرنے چاہئیں اور یہی ان کا اصل کام ہے۔ پشاور اور بنوں کے افسوسناک واقعات سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ دہشت گرد بیرونی اعانت اور پشت پناہی سے وطن عزیز کے کونے کھدروں میں گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ اسی لیے جب تک دہشت گردوں کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا جاتا وطن عزیز میں سیاستدان، عام شہری اور نہ ہی جمہوریت محفوظ کہلا سکتی ہے۔ خدانخواستہ اگر اس قسم کی کوئی اور بڑی واردات ہو گئی تو عام انتخابات کا انعقاد مشکل میں پڑ سکتا ہے۔ سانحہ پشاور کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے جو اپنی رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کرے گی۔ بعداز خرابی بسیار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی تلاش کے لیے پشاور میں آپریشن شروع کیا گیا ہے، نگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جسٹس (ر) دوست محمد خان اور وزیر داخلہ محمد خان نے بھی اس سلسلے میں فوری سخت اقدامات کی ہدایت کی ہے۔ واضح رہے کہ پشاور دھماکے سے ایک روز پہلے ہی نیشنل کاؤنٹریٹررازم اتھارٹی نیکٹا نے واضح کر دیا تھا کہ چند شخصیات جن میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، اے این پی کے اسفند یار ولی، امیر حیدر ہوتی، قومی وطن پارٹی کے آ فتاب شیر پاؤ، جے یو آئی کے اکرم درانی اور حافظ سعید کے صاحبزادے طلحہ سعید شامل ہیں، دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی سکیورٹی کے معاملے میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا تاکہ الیکشن 2018ء دہشت گردی کے گہرے اور منحوس بادلوں کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔ اے این پی نے شکایت کی ہے کہ ہارون بلور کی سکیورٹی واپس لے لی گئی تھی اور بعد ازاں جب بحال کی گئی تو نہ ہونے کے برابر تھی۔ آخر نگران حکومتیں کس مرض کی دوا ہیں کہ وہ پرامن الیکشن کے انعقاد کیلئے سکیورٹی بھی فراہم نہیں کر سکتیں۔