مکرمی ! قصور کی تحصیل چونیاں میں گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران چار بچے اغوا ہوئے ، جن میں سے تین کی لاشیں گزشتہ دنوں مٹی کے ٹیلوں کے قریب سے ملیں ۔ غیرسرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ہر روز تقریباً11 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔سال 2016 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کے خلاف جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے ان میں اغواہ کے1455 کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں سے بدفعلی کے453 ، گینگ ریپ کے271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268 ، جب کہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے ۔ اسی طرح 2017 ء کے اعداد و شمار کے مطابق1441 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ۔ بچوں کو جنسی استحصال کا آسان نشانہ بننے سے بچانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ، ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کرنا، بچوں کو خطرات سے نبٹنے کے لئے تکنیکی سہولتیں فراہم کرنا بھی انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ والدین کا کردار یہاں بہت زیادہ اہم ہے ، والدین اولاد سے دوریاں ختم کر کے دوستی کے رشتے کو پروان چڑھائیں تاکہ کوئی تیسرا اس تعلق میں نہ گھس سکے ۔ ان کے ہر عمل پر نظر رکھیں، ان سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھیں، کسی پر بھی اندھا اعتماد نہ کریں۔ بچوں کی بات پر توجہ دیں، اگر وہ کسی ایسی بات، یا کسی کی کسی حرکت کی آپ سے شکایت کریں تو بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ انہیں حفاظتی تدابیر سے روشناس کروائیں، تاکہ وہ کسی کی بھی لالچ میں نہ آ سکیں، کیونکہ اکثر واقعات میں بچے کو کسی چیز کا لالچ دے کر، گھمانے پھرانے کا لالچ دے کر پھانسا جاتا ہے ۔ بچے ہمارے معاشرے کا مستقبل اور روشن کل ہیں ہر قیمت پر ان کی حفاظت کرنا تمام مکاتب فکر کی اولین زمہ داری ہے،کیونکہ کوئی بھی معاشرہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے گھناؤنے واقعات کو برداشت نہیں کر سکتا۔آج معصوم بچوں کی روحیں ہم سے پوچھ رہی ہیں کہ اس ریاست کا مستقبل کیا ہے جو اپنے معصوم بچوں کو بھی تحفظ نہیں دے سکتی؟ آخر پھول کب تک مسلے جاتے رہیں گے۔ ( رانااعجاز حسین چوہان )