حضرت مولانا فضل الرحمان کی 26جون کو اسلام آباد میںہونے والی کل جماعتی کانفرنس اس اعتبار سے کامیاب رہی کہ اُن کے دائیں بائیں ملک کی دو بڑی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت پہلو بہ پہلو بیٹھی تھی۔تانگہ، یارکشہ پارٹی ہی سہی مگر حضرت مولانا فضل الرحمٰن اپنی کرشمہ سازشخصیت اور دھیمی مسکراہٹ سے میرحاصل خان بزنجو کی نیشنل پارٹی ،اسفندیار ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی اورسدابہار ناراض پشتون رہنمامحمود خان اچکزئی کو بھی اتحادی بنانے میںکامیاب ہوگئے۔کانفرنس سے پہلا بڑا شورو غوغا مچا ہوا تھا کہ اسلام آباد بند اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے جیسے اصولی فیصلوں پر ساری اپوزیشن جماعتوں کو رضامند کرلیا گیا ہے۔حضرت مولانا فضل الرحمٰن کو پہلا دھچکا اُس وقت لگا جب سردار اختر مینگل نے اپنی آمد کی تصدیق کرنے کے بجائے چھ نکاتی مطالبات کا رقعہ حضرت مولانا کو روانہ کردیا۔ماضی کی مولانا کی حلیف جماعت نے بھی ’’ہرا جھنڈا‘‘ دکھا دیا۔۔۔کہ وہ ایسے اتحاد کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔یوں 26جون کو : ع دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشانہ ہوا مشترکہ اعلامیہ میں مہینے بھر بعد یوم ِ سیاہ منانے کی کال دی گئی۔ جو جولائی 2018کے الیکشن کے بعد سے اپوزیشن جماعتیں ہر روز ہی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر منا رہی ہیں۔ہاںایک سنجیدہ قدم اٹھانے پر ضرور اتفاق ہوا اور وہ تھا چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کی رخصتی۔مگر یوں بھی سینیٹ یعنی اپر ہاؤس تحریک انصاف کی حکومت کے آنے کے دن سے اپوزیشن کا یرغمالی ہے۔کانفرنس کے اختتام پر جب مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی تو حضرت مولانا کا چہرہ اور لہجہ اسکرینوں پر دیدنی تھا۔کانفرنس کے دوران اور تو اور حضرت مولانا ،اپنے مشفق اور مربی سابق صدر آصف علی زرداری کے نوجوان صاحبزادے سے ہی الجھ بیٹھے ۔پی پی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری کو حضرت مولانا سے بھڑنا ہی تھا کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور اسلام آباد کی حکومت گرانے سے سارے ملک میں ان کا واحد ’’توشہ خانہ‘‘یعنی صوبہ سندھ کی بھی تو خیر نہیں رہتی ۔حضر ت مولانا کا کیا ہے۔اس وقت تو اُن کے پاس’’ کھونے اور لٹانے‘‘کیلئے ان کا آبائی حلقہ ڈیرہ اسماعیل خان بھی نہیں رہا۔کسی بھی سویلین اور فوجی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا متحد ہونا اور تحریک چلانا آئینی اور جمہوری حق ہے۔مگر حضرت مولانا فضل الرحمٰن کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔حضرت مولانا سے برسوں کی نیاز مندی ہے۔مگر جولائی 2018کے الیکشن میں انہیں اور ان کی جماعت کو جو ہزیمت آمیز شکست ہوئی اُس سے ان دنوں اُن کی معذرت کے ساتھ صورت حال’’کھسیانی بلی‘‘جیسی ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ حضرت مولانا کے پاس ایک ایسی مدارس کے طلبہ کی فورس ہے جس سے دیگر اپوزیشن کی جماعتیں محروم ہیں۔مگر بھیگے ہزاروں کیا لاکھوں طلبہ کو سڑکوں پر لانے سے حکومتیں تبدیل نہیںہوتیں۔اس کا ادراک تو خود حضرت مولانا کو ہوگا بھی اور ہونا چاہئے کہ اُن کی آنکھ ایک ایسے گھرانے میںکھلی ہے جس کا گزشتہ پانچ دہائی میںحکومت کو بنانے اور گرانے میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔حضرت مولانا فضل الرحمٰن کے والد محترم حضرت مولانا مفتی محمود کا ستر کی دہائی میں طوطی بولتا تھا۔بالغ رائے دہی کی بنیاد پر جب 1970میں الیکشن ہوئے تو قوم پرستوں کے گڑھ اس وقت کے صوبہ سرحد میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔اور پھر پاکستان کی تاریخ میں انہیں صوبہ ٔ سرحد کا پہلا منتخب وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔اور پھر حضرت مولانا مفتی محمود کا یہ کارنامہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنہری حرفوں سے ہی لکھا جائے گا کہ جب بھٹو صاحب نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا تو دوسرے ہی دن و ہ اپنا صندوقچہ اٹھا کر وزیر اعلیٰ ہاؤس سے اپنے آبائی گھر روانہ ہوگئے۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف یقینا اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی تحریک تاریخی نوعیت کی تھی۔مگر اس تحریک میں اپوزیشن کے قومی اتحاد کی کامیابی کے اسباب و محرکات اور عوامل پر گیا تو پھر وہی ’’کالم پہ کالم‘‘کا تومار لگ جائے گا۔جس سے گریز کرنا چاہتا ہوں۔مگر پھر یہ بھی تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ محض ’’سرا‘‘پکڑ کر چھوڑا بھی نہیں جاتا کہ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک سمیت ماضی کی سویلین اور فوجی حکومتوں کے خلاف جتنی بھی تحریکیں چلیں۔۔۔اس کے مستقبل میںاتنے دوررس اور گہرے اثرات پڑے جن سے وطن عزیز آج تک نہیں سنبھل سکا۔ریاست کے کسی ادارے اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں نظر ڈالیں۔۔۔بدقسمتی سے صورتحال روبہ زوال ہی نظر آتی ہے۔سیاست اور سیاسی جماعتیں Electableیعنی لوٹوںکی منڈیاں ،معیشت ملکی و غیر ملکی بے ساکھیوں پر لرز ہ بر اندام ،72سال بعد بھی بقول شاعرِ عوام: ع عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں بھارت کی مثال دینا کبھی اچھا نہیں لگتا۔کہاں جواہر لال نہروجیسا سحر انگیز اسٹیٹسمین وزیر اعظم اور کہاں انتہا پسند فاشسٹ ،نریندر مودی،مگر آج بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا ہے۔یہ لیجئے میںحضرت مولانا فضل الرحمٰن کی آل پارٹی کانفرنس پر لکھتے ہوئے بھٹکتا ہوا کہاں نکل آیا۔مگر یہ اپنی جگہ تاریخی حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں جتنی بھی سویلین اور فوجی حکومتوںکے خلاف تحریکیں چلیں ۔۔۔ان کے نتیجے میں نہ تو کبھی جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم ہوئے اور نہ ہی اس سے اس عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آئی۔ساٹھ کی دہائی میں اگر22امیر گھرانوں کے ہاتھوں میں ملک کی دولت تھی تو آج 22سو گھرانے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ (جاری ہے)