پی آئی اے میں انتظامی اوورہالنگ کی ضرورت پی آئی اے کی شاہ خرچیوں اور اللے تللوں کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ اس نے 9بوئنگ 777طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لئے 2016ء میں ایک نجی کمپنی سٹیلا کو دو ارب روپے جاری کئے لیکن کام دو روپے کا بھی نہیں ہوا۔ یہ رقم طیاروں میں انٹرٹینمنٹ سسٹم‘بزنس کلاس کی نشستوں کی اپ گریڈیشن اور دیگر کاموں کے لئے دی گئی تھی لیکن ’’کھایا پیاکچھ نہیں‘ گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ کے مصداق وہ طیارے ویسے کے ویسے ہی رہے‘ جیسے کہ تھے‘ اب ایف آئی اے نے معاملہ ہاتھ میں لے کر متعلقہ افسروں کے بیانات قلمبند کرنا شروع کئے ہیں۔ یہی وہ پی آئی اے تھی جس نے دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کو اڑنا سکھایا‘ نیک نامی پیدا کی۔ گزشتہ حکومتوں نے اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ادارے میں بھرتیوں کے معاملات میں اقربا پروری کی حد کر دی۔ جس سے دنیا کی عظیم ترین فضائی کمپنی اپنی ساکھ کھو بیٹھی۔ حکومت کو چاہیے کہ پی آئی اے پر خصوصی توجہ دے‘ اس کے معاملات کو دیکھے اور وہاں ایماندار اور محنتی افسروں کو تعینات کرے۔ اگرچہ حکومت نے پی آئی اے کی بہتری کے لئے متعدد اقدامات کیے ہیں تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تکنیکی اور انتظامی لحاظ سے مکمل اوور ہالنگ کی جائے تاکہ پی آئی اے اپنی 60ء کے عشرہ جیسی ساکھ ‘شہرت، معیار اور ’’باکمال لوگوں کی لاجواب سروس‘‘کا سٹیٹس بحال کرنے میں کامیاب ہو سکے۔