کراچی میں پاکستان سپرلیگ میچوں کا پرجوش ماحول میں انعقاد اس امر کی دلیل ہے کہ سکیورٹی اداروں اور عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ امن اور تفریح کے لیے قوم نے ایک صبر آزما جنگ لڑی ہے۔ ٹورنامنٹ کا فائنل میچ دیکھنے کے لیے صدر مملکت عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، گورنر سندھ عمران اسماعیل، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر اعلیٰ شخصیات نیشنل سٹیڈیم میں بنفس نفیس تشریف لائیں۔ شائقین کرکٹ نے ناصرف سٹیڈیم میں آ کر اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو ان کے کھیل پر داد دی بلکہ دوسرے شہروں میں بڑی سکرینیں لگا کر شہریوں نے مل بیٹھ کر میچ دیکھنے کا انتظام کیا۔آرمی چیف نے پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد پر پوری قوم کو مبارکباد دی اور پاکستان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں جاری رہنے کی دعا کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے سٹیڈیم میں موجود ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح عوام اور سکیورٹی فورسز نے مل کر کام کیا اس سے پی ایس ایل کے انعقاد کو کوئی نہ روک سکا۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ پی ایس ایل ٹورنامنٹ کے تمام میچ پاکستان میں ہوں گے اور پشاور،میرانشاہ اور مظفر آباد میں میچز رکھے جائیں گے۔ قوم ایک دن میں بنتی ہے نہ کوئی ایک واقعہ ہجوم کو قوم میں ڈھالتا ہے۔ مشترکہ سماجی، ثقافتی، علاقائی اور مذہبی اقدار لوگوں کو یکجا کرتی ہیں۔ امیر غریب کی کوئی تفریق رہتی ہے نہ مقامی زبان و لباس کی رکاوٹیں قومی تشکیل میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ پاکستان میں جو علاقے شامل ہوئے ان کی مقامی ثقافتیں اس قدر توانا تھیں کہ یوں محسوس ہوتا کہ ان کی موجودگی میں ایک قومی ثقافت کی تجسیم ناممکن نظر آئی تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی قوم نے موسیقی، فنون لطیفہ، لباس، خوراک، مشروبات، کھیلوں اور تفریحی تصورات میں اس قدر جلد یگانگت کا مظاہرہ کیا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ کھیلوں کے مقابلے جہاں بھی ہو رہے ہوں وہاں پاکستانی ایک قوم دکھائی دیتے ہیں۔ کرکٹ ایک مقبول کھیل ہے جس کے ساتھ کروڑوں پاکستانی ایک جیسے خوشی غمی کے احساس سے جڑے ہوئے ہیں۔ معاشی مشکلات نے ایک علاقے کے لوگوں کو دوسرے علاقے میں جا کر محنت مزدوری کرنے کی ترغیب دی۔ قبائلی علاقوں سے مزدور بیرون ملک گئے۔ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں آباد ہوئے۔ جنوبی پنجاب سے لوگ پسماندگی دور کرنے بڑے شہروں کی طرف آئے۔ یوں اندرون و بیرون ملک ایک دوسرے سے قریبی رابطوں کا سلسلہ پہلو بہ پہلو جاری رہا۔ یہی وجہ ہے کہ شارجہ، ابوظہبی میں کوئی میچ ہو تو پاکستانی لوگ صرف پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں۔ نائن الیون نے جنوبی ایشیا اور پاکستان کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ پاکستان پر امریکہ کی جانب سے ان مجاہدین کے خلاف کارروائی کے لیے دبائو ڈالا گیا جو سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں برسرپیکار رہے تھے۔ کچھ عسکریت پسندوں نے پاک افغان سرحدی علاقے میں رہائش اختیار کر رکھی تھی۔ ان میں چیچن، ازبک اور عرب باشندے تھے۔ کچھ نے یہاں مقامی خواتین سے شادیاں کر لی تھیں۔ پاکستان نے ابتدائی طور پر ان سب کی رجسٹریشن کی۔ پھر ان کو غیر مسلح کیا اور امن کی زندگی گزارنے کا معاہدہ کیا۔ جو لوگ عسکریت پسندی چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے وہ افغانستان چلے گئے یا پھر سکیورٹی فورسز سے مقابلوں میں مارے گئے۔ پاک فوج نے سوات، شمالی وزیرستان،جنوبی وزیرستان اور دوسری ایجنسیوں میں بھرپور آپریشن کیے۔ لال مسجد کا واقعہ پاکستان میں دہشت گردی کو شہری علاقوں تک لے آیا۔ کوئی شہر اور علاقہ ایسا نہ تھا جہاں دہشت گردوں نے حملہ نہ کیا ہو۔ پولیس، رینجرز، ایف سی، ایف آئی اے اور فوج کے دفاتر پر خودکش حملے ہوئے۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کو بھلا کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے جس میں 150بچے اور ان کی ٹیچرز شہید ہوئیں۔ دہشت گردی نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سمیت کئی سیاستدانوں کی جان لی۔ اس سے عدم تحفظ کا احساس ضرور پیدا ہوا مگر پاکستانی قوم کے عزم اور حوصلے میں کمی نہ آئی۔ مارچ 2009ء میں لاہور میں ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے آئی سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ اس حملے کے بعد پاکستان دشمن قوتوں نے ہر بین الاقوامی فورم پر پاکستان کو کھیلوں کے لیے غیر محفوظ ملک کہہ کر یہاں عالمی مقابلوں کا انعقاد ناممکن بنا دیا۔ پاکستانی قوم نے معاشی مسائل کا سامنا کیا، خطرات کا مقابلہ کیا لیکن انہیں اس بات کا دکھ رہا کہ دشمنوں نے کھیلوں کے میدان ویران کر دیئے۔ آئی سی سی کے نمائندوں نے جس طرح پاکستان سپر لیگ کے انعقاد پر اطمینان کا اظہار کیا اور امن کی صورتحال کو تسلی بخش قرار دیا ہے اس سے نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ امن و امان اور تفریحی سرگرمیوں کے فروغ کے حوالے سے پاک فوج کے تعاون سے میرانشاہ میں یونس خان سٹیڈیم اور وزیرستان میں ہی شاہد آفریدی کے نام سے ایک کرکٹ سٹیڈیم بن چکا ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا ان گرائونڈز پر کرکٹ میچ کروانے کا اعلان ایک اہم پیشرفت ہے۔ ان علاقوں میں قیام امن کی کوششوں کو استحکام فراہم کرنے کے لیے کھیلوں کی سرگرمیوں کا فروغ ضروری ہے۔ آئینی ترمیم کے بعد اب یہ ’’علاقہ غیر‘‘ نہیں رہے۔ یہاں کے لوگوں کو دوسرے پاکستانیوں کی طرح مکمل سیاسی حقوق دیدیئے گئے ہیں۔ ان کے لیے بہتر تعلیمی و معاشی مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔ یہاں کھیلوں کے میدان بین الاقوامی کھلاڑیوں سے آباد ہوتے ہیں تو یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم کی حتمی جیت کا اعلان ہو گا۔