28اپریل 1977ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کے مشترکہ اجلاس سے تقریباً پونے دو گھنٹے تک نہایت جوشیلے اور جذباتی انداز میں خطاب کیا۔ اس تاریخی خطاب میں انہوں نے امریکہ کام نام لئے بغیر اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا مجرم ٹھہرایا انہوں نے کہا کہ پاکستان قومی اتحاد کے رہنمائوں کے پاس اتنا دماغ اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ تحریک لا سکتے۔ یہ سب کچھ بہت بڑے پیمانے پر بین الاقوامی مداخلت ہی کا نتیجہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر میں کہا کہ میرے بہت سے جرائم’’ہاتھی‘‘ کے لئے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ میرا پہلا جرم یہ تھا کہ میں نے چین سے تعلقات بہتر بنائے۔میرا دوسرا جرم یہ تھا کہ میں نے مشرق وسطیٰ میں عربوں کی حمایت کی اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے پی ایل او کو تسلیم کیا اور یاسر عرفات نے اقوام متحدہ سے خطاب کیا۔ میرا تیسرا جرم یہ تھا کہ میں نے تیسری دنیا کا تصور پیش کیا اور ان تمام جرائم سے بڑا جرم یہ تھا کہ میں نے ایٹمی پراسینگ پلانٹ کی خریداری پر اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی۔یہ ٹھیک ان دنوں کی بات ہے کہ جب پورے ملک میں پاکستان قومی اتحاد کا احتجاج چل رہا تھا۔ 30اپریل 1977ء کو پی این اے نے راولپنڈی میں لانگ مارچ کرنے اور وزیر اعظم کا گھیرائو کرنے کی اپیل بھی کر دی ۔ اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو اچانک ایک کھلی جیپ میں راولپنڈی کی سڑکوں پر نمودار ہوئے انہوں نے راولپنڈی صدر میں امریکن سنٹر کے سامنے عوام سے خطاب کیا اور لوگوں کو امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس کا وہ خط دکھایا جس میں امریکی حکومت کی دھمکی آمیز تحریر موجود تھی جیسا کہ پی این اے نے مکمل طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا اس سارے عرصہ کے دوران پاکستان میں موجود سعودی عرب کے سفیر جناب ریاض الخطیب نے مصالحتی کوششوں کا آغاز کیا ان تمام سفارتی کوششوں میں کویت کے علاوہ فلسطین کے سفیروں نے بھی حکومت اور اپوزیشن رہنمائوں کے درمیان مصالحت کروانے کی بھر پور کوشش کی ۔پاکستان قومی اتحاد کی ٹیم میں مولانا مفتی محمود‘نوابزادہ نصراللہ اور پروفیسر غفور احمداور حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں ذوالفقار علی بھٹو‘ عبدالحفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی شامل تھے۔ ان تمام مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں 2جولائی 1977ء کو سمجھوتے کی تمام شقوں پر اتفاق رائے کا اعلان ہوا پھر آئینی ماہرین کے مشورے پر یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ اس سمجھوتے کو آئین کا تحفظ درکار ہے جس کے لئے آئین پاکستان میں ترمیم کر دی جائے لیکن 4جولائی کی رات کو ذوالفقار علی بھٹو نے عجلت میں بلائی ہوئی ایک پریس کانفرنس میں قومی اتحاد کے رویے پر شدید نکتہ چینی کی اور کہا کہ اس اتحاد نے نئے سرے سے مسائل کھڑے کر کے قوم کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اگر اتحاد طے شدہ مسائل دوبارہ اٹھانے کو اپنا حق سمجھتا ہے تو میں بھی ایسے مسائل ازسرنو چھیڑنے کا حق رکھتا ہوں۔ اس غیر یقینی کی فضا میں 5جولائی 1977ء کی رات آن پہنچی اس رات پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا بعد میں بتایا گیا کہ یہ دن یعنی 5جولائی کو حکومت اور اپوزیشن میں معاہدے پر دستخط ہونا تھے لیکن بدقسمتی سے پورا ملک مارشل لاء کی لپیٹ میں آ گیا اور پھر گیارہ سال تک قومی جمہوریت کو ترستی رہی۔ اس پورے عرصے کے دوران جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے میاں نواز شریف کا ’’کِلہ‘‘ ایسا مضبوط کیا کہ پوری قومی ابھی تک اسی کلے کے گرد گھوم رہی ہے ۔ میاں صاحب تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے سمدھی اسحق ڈار‘ شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور مریم نواز تک اقتدار کے ایوانوں میں کلیدی کردار کے مالک بن گئے۔ان کا یہ پورا دور حکومت پاکستان کے لئے کسی المیے سے کم نہیں رہا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹا گیا۔ اب موجودہ سیاسی منظر نامے میں دونوں سابقہ حکمرانوں کے بارے میں کرپشن کی داستانیں عام ہیں لیکن ان بدعنوانیوں کے ثبوت غائب ہیں۔ پوری کی پوری بیورو کریسی اپاہج نظر آتی ہے۔ قانون کی حکمرانی دیکھ لیں کہ عدالت نے میاں نواز شریف کو سزا دی مگر میاں صاحب مجرم ہونے کے باوجود پاکستان سے باہر جا کر لندن کی آزاد فضائوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔نواز شریف کے تینوں ادوار حکومت میں بھارت نواز خارجہ پالیسی اپنائی گئی اور بھارت کی کاروباری شخصیات کے ساتھ شریف خاندان نے اپنے کاروباری روابط استوار کئے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری نے اپنے اپنے طور پر پاکستان مخالف حسین حقانی کو اپنے خاص مقاصد کی خاطر استعمال کیا ۔حسین حقانی سری لنکا میں سفیر رہے ،پھر آصف علی زرداری نے امریکہ میں ان کو پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا ۔حسین حقانی نے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے امریکی پالیسیوں کا بھر پور دفاع کیا اور پاکستان میں سی آئی اے کا وسیع نیٹ ورک قائم کروایا اور ہزاروں کی تعداد میں بلیک واٹر کے خفیہ جاسوسوں کو ویزے جاری کئے۔ اس وقت خطے کی صورت حال انتہائی نازک دور میں داخل ہو چکی ہے۔ افواج پاکستان حالت جنگ میں ہیں۔ ملک کی معاشی صورت حال بگڑ چکی ہے، غیر ملکی قرضوں کا بوجھ قومی خزانے کو خالی کر رہاہے۔ ان حالات میں پاکستان کی موجودہ حکومت کو کمزور کرنا اور پھر عمران خان کی حکومت کو ہر طرح سے ناکام بنانا‘ ملکی اداروں میں محاذ آرائی کی فضا پیدا کرنا‘ عسکری اداروں کو کمزور کرنا یہ سب کچھ غیر ملکی ایجنڈا ہے جو کہ خفیہ ہاتھ اندرون ملک اسے پورا کروانے میں دن رات کام کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ اور سینٹ آف پاکستان میں اپوزیشن نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے یہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی گہری سازش ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پی این اے کی تحریک میں امریکی ڈالرز کی بھرمار تھی اور پی ڈی ایم کی تحریک میں بھاری سرمایہ کون فراہم کرتا ہے ؟اس تحریک کو ہر روز نیا ایجنڈا کون دیتا ہے اور پھر لندن سے پاکستان مخالف قوتوں سے رابطے کون کرتا ہے؟ پاکستان کے عسکری اداروں کو کمزور کرنے اور خود افواج پاکستان میں غیر یقینی کی صورت حال کون پیدا کرنا چاہتا ہے؟ان تمام عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔