ہمارا گھر کیا تھا پورے گائوں کے بچوں کا سکول تھا۔ تین ہزار آبادی پر مشتمل ایک بار کے آخری کنارے پر آباد گائوں۔جہاں نہ سڑک تھی نہ ٹرانسپورٹ۔کہنے کو یہ علاقہ ضلع گجرات کی حدود میں شامل تھا مگر گجرات پہنچنا کار ِ دارد تھا۔ایک چھوٹا سا سرکاری سکول جو گرمیوں میں ایک برگد کے پیڑ کے نیچے اور موسم سرما میں بھیرہ منڈی بہائوالدین روڈ پر ایک انگریز سرائے کے کھنڈر کے کھلے میدان میں شفٹ ہو جاتا تھا۔دور تک دھوپ کا سونا پھیلا پڑتا تھا۔کوئی سونے کی چادر تھی جو قدرت نے چاروں طرف بچھا دی تھی۔ایک استاد اور پانچ جماعتیں۔اتنے طلبا کو پڑھانا ایک مشکل امر تھا ایک ٹیچر کتنی توجہ دے سکتے تھا صرف حاضری پر ایک آدھ گھنٹہ صرف ہو جاتا تھا۔اوپر سے انہوں نے ایک عدد بھینس بھی پال رکھی تھی۔اس کا دودھ دوہنا بھی طلبا کے ذمہ تھا۔سو جب وہ پوچھتے کہ آج کون دودھ دوہے گا تو ہم چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگتے۔جو دودھ نہ دوہ سکتا جنگلی بوٹی کے تازہ بنے ہوئے مولا بخش سے پٹائی کرتے۔ اسی وجہ سے بہت سارے طلبا چھٹی کے بعد ہمارے ابا جی کی حویلی میں آ جاتے۔ کچھ پڑھتے کچھ جھاڑیں کھاتے البتہ ابا جی نے کبھی کسی طالب علم کو نہیں مارا۔وہ یہ شوق اپنی اولاد پر پورا کر لیتے تھے۔ہم خود ان کے سامنے کتنی مرتبہ مرغے بنے۔البتہ پاپوش مبارک سے کبھی تواضع نہیں کی۔ بار کا علاقہ جہلم دریا کے بایں کنارے سے نکلتا چناب تک پھیلا ہوا تھا۔علاقہ جس قدر قدرتی حسن سے پھٹا پڑا تھا اسی تناسب سے پسماندگی کے گڑھے میں لک لک ڈوبا ہوا تھا۔ایک ہی ریلوے لائن تھی جو ہاتھ پر زندگی کی لکیر کی طرح لالہ موسٰی سے سرگودھا تک پھیلی ہوئی تھی۔ لائن کے دونوں جانب جنگل، بیلہ، کنوئیں اور سر سبز کھیت تھے۔ گائوں میں ریلوے سٹیشن بھی نہیں تھا۔تب صفدر عباس زیدی سابق صدر حبیب بینک کے والد ِ محترم سید رضا حسین شاہ اور قبلہ ابا جی نے فیصلہ کیا کہ ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور درخواست دی جائے کہ ہمارے گائوں میں بھی ریلوے سٹیشن کی منظوری دی جائے۔انہوں نے اہل دیہہ سے ایک درخواست پر دستخط اور انگوٹھے لگوا کر لاہور ریلوے ہیڈ کوارٹر ارسال کر دی۔بھلے زمانے تھے چند دن بعد ریلوے کے افسران اسٹیشن کی جگہ کا سروے کرنے آ گئے۔ابا جی اور دوسرے معززین سے مل کر سٹیشن کی نشاندہی کی۔چھوٹا سا ٹکٹ گھر بن گیا۔فتح شاہ پور ہالٹ کے نام یہ اسٹیشن کیا بنا گائوں کی کایا ہی پلٹ گئی۔ گائوں کے پرائمری سکول میں جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں تب بھی ہمارے گھر کا سکول کھلا رہتا۔یہاں مولا بخش نہ ہوتا سو طلبا کھنچتے چلے آتے۔یہاں چھٹی کرنے کے اوقات مقرر نہیں تھے مگر کوئی اس درسگاہ سے چھٹی کرتا ہی نہیں تھا۔اسکول کے اساتذہ بھی سہ پہر کے وقت یہاں آجاتے۔اسٹیشن بننے کے بعد لڑکے ٹرین پر ملحقہ شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے لگ تھے۔اسٹیشن اور گائوں کے درمیان والا راستہ مسافروں کی آمدورفت سے رنگین ہوتا جا رہا تھا۔ تعلیم کی وجہ سے نوجوانوں کو چھوٹی موٹی ملازمتیں ملنا شروع ہو گئیں تھیں۔اور وہ ملک کے مختلف حصوں بشمول مشرقی پاکستان میں ملازمت کرنے لگے تھے۔ گائوں میں ایک چھوٹا سا ڈاک خانہ تھا۔ خط وکتابت برائے نام ہوتی تھی۔ایک دن پتہ چلا چونکہ یہاں سے ایک مخصوص تعداد میں نہ خطوط ارسال کیے جاتے ہیں نہ موصول ہوتے ہیں لہذا اگلے ماہ تک کارکردگی کو بہتر بنایا جائے ورنہ ڈاک خانہ بند کر دیا جائے گا۔آپ ساتھ والے شہر جاتے اور وہاں ہر ہفتے آٹھ دس خطوط اپنے نام ارسال کرتے یوں ڈاک خانہ قائم رہا۔آج کورئیر کے زمانے میں بھی وہ ڈاک خانہ کام کر رہا ہے۔ساری زندگی درس و تدریس میں گزار دی۔عربی اور فارسی پر عبور تھا۔ان کے کتب خانے میں بہت سارے قلمی مخطوطے تھے جو پنجاب میوزیم کے کہنے پر انہیں ارسال کر دئیے گئے۔ان کے دوستوں میں بھی اساتذہ، علما اور مشائخ ہی شامل تھے۔منبر ِ رسول ؐ پر انہی کی سنت کا درس دیتے تھے۔ان کی رحمت اللعالمینی کا حوالہ ان کا پسندیدہ ترین موضوع تھا۔اپنے نعتیہ مجموعے خزینہ رحمت میں یہی وارفتگی نمایاں ہے۔جب اس نعتیہ مجموعے کی اشاعت ہونے والی تھی تو ہم نے دست بستہ گزارش کی کہ مجموعے کا نام صرف رحمت یا خزینہ رکھ دیں۔انہوں نے فرمایا یہ رحمت کا خزانہ ہی تو میری زندگی کی کل کمائی ہے۔ہمیں اعزاز ہے کہ ان کے غزلیہ مجموعے کا نام قطب ستارہ ہمارا تجویز کردہ ہے جو انہوں نے مسکراتے ہوئے قبول فرمایا۔انہوں کا پنجابی لوک داستانوں پر بہت وقیع کام ہے جس کی پنجابی ادب کے قارئین تحسین کرتے ہیں۔وہ پنجابی شعرا کی کلاسیک لڑی کے آخری شاعر تھے اور فی الحقیقت پنجابی ادب کے معمار تھے۔سندھ والے تو اپنے کلاسیک کو دیوتائوں کی طرح مانتے ہیں النتہ اپنے پنجابی بابو حکمران اپنے لکھاریوں کو ان پڑھ ہی سمجھتے ہیں خواہ ان کا کلام ڈاکٹریٹ کرنے والے ریفرنس کے طور پر استعمال کریں۔سراج قادری کا جس قدر کام ہے اس پر توجہ نہیں دی گئی۔وہ اصل پنجابی ادب کے معمار ہیں۔اکادمی ادبیات میں معمار بننے کے لیے جس طرح کی چھینا جھپٹی ہوتی ہے اس سے سب باخبر ہیں اور جس طرح نام ریکمنڈ کروائے جاتے ہیں وہ ایک کھلا راز ہے۔ سراج قادری کی بہت ساری کتب نایاب ہیں اور اندیشہ ہے اس عدیم النظیر پنجابی کلاسیک سے اگر اسی طرح بے رخی برتی گئی تو اگلی نسل شاید اس خزانے سے محروم ہو جائے۔اکادمی ادبیات جس طرح کے لوگوں کو معمار بنا رہی ہے اس پر بار ِ دگر سوچا جانا چاہیے اور ادب کے اصل معماروں اور اصل لعلوں کے ونجاروں پر کام کرنا ہو گا۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔