کھڑے کھڑے ٹانگیں دکھ گئیںلیکن قطار آگے سرکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔کاؤنٹر تک رسائی ہوجائے تو بورڈنگ پاس میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ نہ لگنی چاہیے لیکن جو صاحب پونے گھنٹے سے کاؤنٹر پر کھڑے تھے وہ بس کھڑے تھے۔انہیں بورڈنگ پاس مل ہی نہیں رہا تھا کہ دائیں بائیں ہوجاتے۔ان کے پیچھے پندرہ بیس مسافروں کے بعد اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے میں یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ ان صاحب کو پون گھنٹہ لگ چکا ہے تو اس حساب سے مجھے کُل کتنا وقت لگے گا۔ 12 ستمبر کی سہ پہر میں جناح ائیر پورٹ کراچی پر پی آئی اے کی لاہور کے لیے پروازکے حساب سے قدرے پہلے پہنچ گیا تھا۔ سوچا تھا کہ وقت کافی ہے ،اس وقت میں پڑھنے پڑھانے کا کام تسلی سے کیا جاسکے گا۔بورڈنگ کاؤنٹرز میں نجی ائیر لائنز کے کاؤنٹر مصروف تھے لیکن قومی ائیر لائن کے آٹھ دس کاؤنٹر میں ایک کے سوا کسی کاؤنٹر پر کوئی عملہ موجود نہیں تھا چنانچہ تمام لوگ اسی ایک کاؤنٹر کا رخ کر رہے تھے۔ گزشتہ دو دن سے پی آئی اے کی آن لائن بکنگ سروس بند تھی ۔نئی بکنگ کروانے اور اپنی بکنگ چیک کرنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔مسافر پریشان اور ٹریول ایجنٹ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔پتہ چلا کہ پی آئی اے نے اپنا آن لائن آپریٹنگ سسٹم تبدیل کردیا ہے اس لیے فی الحال کوئی بھی سسٹم کام نہیں کر رہا۔خوش قسمتی سے میری نشست پہلے سے محفوظ تھی اس لیے میں خود اس پریشانی سے نہیں گزرا لیکن لوگ بہرحال بہت مشکل میں تھے۔ سارا دباؤ تین فضائی کمپنیوں پر تھا اور ان کے ٹکٹ اگر خوش قسمتی سے مل جائیں تو قیمتوں کو آسمان پر چڑھ کر چھونا پڑ رہا تھا۔ مزید آدھ گھنٹہ انتظار کے بعد ایک دو کاؤنٹر پر مزید عملہ آگیا۔ قطار میں پیچھے کھڑے ہوئے مسافر اِن کاؤنٹرز کی طرف لپکے۔صورت حال ان کاؤنٹرز پر بھی یہی تھی۔نیا سوفٹ وئیر کام نہیں کر رہا تھااور اگر کبھی سوفٹ وئیر کام کرتا تو پرنٹر کے ساتھ اس کی مطابقت نہیں ہوتی تھی لہذا بورڈنگ پاس پرنٹ نہیں ہورہے تھے۔ موجود عملہ اس سوفٹ وئیر کو ٹھیک سے سنبھال نہیں پا رہا تھا۔آئی ٹی شعبے کا ایک مستعد سا نوجوان ادھر سے ادھر کاؤنٹرز پر بھاگا پھر رہا تھاکیوں کہ اس اکیلی جان پر تمام کاؤنٹرز کو چالو رکھنے کا بوجھ آپڑا تھا۔جس خاتون نے آخر کار سوا گھنٹے کے انتظار کے بعد میرا بورڈنگ پاس مجھے دیا اس نے بتایا کہ آپریٹنگ سسٹم بدلنے سے بے شمار پریشانیاں ہورہی ہیں اور کم از کم ایک ہفتہ اسے سمجھنے اورٹھیک استعمال کرنے میں درکار ہوگا۔مسافروں کی جھنجلاہٹ بھی فطری تھی اور عملے کی بے بسی بھی ۔چنانچہ فریقین کی دو طرفہ شکایات جائز تھیں۔ ایک قومی ائیر لائن ہی کیا کسی بھی قومی ادارے پر جائز تنقید کرتے ہوئے بھی مجھے افسوس ہوتا ہے اس لیے کہ یہ ہمارے ادارے ہیں جن کا ایک ذرّے کے برابر سہی، حق ملکیت میرے پاس بھی ہے۔ہم بہت سے مسافروں کا درست اور غلط رویہ بھی دیکھتے ہیں جن کو زمینی عملے سے لے کر فضائی عملے تک سب برداشت کرتے ہیں اور یہ اتنا آسان کام بھی نہیں ہے۔لیکن یہ مشکلات تو ہر ائیر لائن کے ساتھ ہوتی ہیں، صرف پی آئی اے کے ساتھ نہیں اس لیے ذمے داران کو ائیر لائن کی ناقص منصوبہ بندی یا غلط حکمت عملی پر تنقید کھلے دل سے سننی چاہیے۔ ویسے تو پروازوں میں تاخیر، فضائی عملے کی کارکردگی اور کھانے وغیرہ کے معیار سمیت ہر شعبے میں فوری بہتری کی ضرورت ہے لیکن اس وقت تو بات سوفٹ وئیر کی ہے۔ 1994 ء میں پی آئی اے نے سیبر گلوبل ڈسٹری بیوشن سسٹم Sabre Global Distribution System سے آپریٹنگ سسٹم کا معاہدہ کیا ۔سیبر امریکن ائیر لائنز کی ذیلی اور ایک امریکی نژاد کمپنی تھی۔یہ آپریٹنگ سسٹم بنیادی طور پر آن لائن بکنگ، ای ٹکٹ اور کاغذی ٹکٹ کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنے کا ایک قدم تھا۔اس وقت بھی سیبر اختیار کرنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کی گئی ،لیکن اس وقت کی انتظامیہ نے کسی کی نہ سنتے ہوئے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔یہ کئی لحاظ سے ایک غلط فیصلہ ثابت ہوا ۔ایک تو اس لیے کہ یہ سسٹم اکثر ڈاؤن رہتا تھا، چنانچہ پورے ملک میں پی آئی اے کا ٹکٹنگ سسٹم معطل رہنے لگا۔بکنگ میں دیر لگتی تھی اور اس سسٹم میں پی آئی اے کی بہت سی ضروریات پوری نہیں ہوسکتی تھیں چنانچہ یہ ائیر لائن کو بہت مہنگا پڑنے لگا۔لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سسٹم کے چھوٹے موٹے نقائص( (bugsدور کرنے کے لیے سیبر کو سالانہ بڑی رقم دی جاتی تھی جب کہ مبینہ طور پر کمپنی نے یہ خدمات کبھی دی ہی نہیں۔ سسٹم ڈاؤن ہونے کی وجہ سے پی آئی اے کا روزانہ ہزاروں روپے کا نقصان ہونے لگا۔آپ اس میں معاہدے کی سالانہ رقم بھی شامل کرلیں جس کے بدلے میں خدمات ملتی ہی نہیں تھیں تو یہ نقصان سالانہ کروڑوں میں پہنچ جاتا ہے۔آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ دیگر ائیر لائنز کی85 فیصد فروخت آن لائن ذریعے سے تھی جبکہ پی آئی اے میں یہ فروخت مجموعی فروخت کا صرف10 فیصد تھی۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق صرف اس سوفٹ وئیر کی وجہ سے پی آئی اے کا نقصان اربوں روپے میں تھا۔ بچپن میں پیر تسمہ پا نامی ایک پیر فرتوت کا ذکر کہانیوں میں پڑھا تھاجو ایک بار پشت پر سوار ہوجائے تو تسمے جیسی ٹانگیں اس طرح باندھ لیتا تھا کہ کسی طرح اسے اتارنا ممکن نہیں ہوتا تھا ۔اس بوڑھے کو چوبیس سال پشت پر سوا ررکھنے کے بعد آخر18اپریل 2018ء کو پی آئی اے نے ایک ترک نژاد کمپنی حطیت (HITIT)سے نئے سسٹم کے لیے نیا معاہدہ کیا ۔یہ سسٹم بارہ ستمبر2018ء کو فعال ہوگیا ۔ ٹرکش ائیر لائن سمیت کئی دیگر ائیر لائنز کو سسٹم فراہم کرنے والی یہ کمپنی پی آئی اے کو ریزرویشن،فلائٹ آپریشنز،اکاؤنٹنگ،فضائی عملے کی مینجمنٹ،فلائٹ شیڈولنگ اور فلائٹ چیک ان سمیت بہت سی سروسز مہیا کرے گی ۔ پی آئی اے کے چیرمین جناب ثاقب عزیز کے مطابق اس سے پی آئی کو اربوں کی بچت کے ساتھ ساتھ ائیر لائن سٹاف ، فلائٹ آپریشنز اور کیش فلو میں بہت مدد ملے گی ۔ مزے کی بات ہے کہ حطیت(HITIT) کمپنی کا نام اناطولیہ ترکی کی قدیم ،مشہور زمانہ حطی تہذیب (Hittite civilization)کے نام پررکھا گیا تھا ۔ حطی لوگ اناطولیہ (ایشیائے کوچک ) ، موجودہ ترکی میں سولہویں صدی قبل مسیح میں حکمران قبائل تھے ۔قدیم عبرانی کتابوں میںیہودیوں کا مخالف گروہ ۔ نیزمصر کے مشہور زمانہ امرنا خطوط Amarna letter) (میں بھی ان کا ذکر ملتا ہے ۔ سوال کئی ایک ہیں ۔ گزشتہ کل سے متعلق یہ کہ کوئی فرد یا افرا د تو1994ء کے اس فیصلے کے ذمے دار ہوں گے۔چئیر مین سے لے کر آئی ٹی کے ماہرین تک۔ کیا ایسی کوئی رپورٹ سامنے آئی کہ اس وقت کون سے متبادل نظام موجود تھے جن میں سے سیبر اختیار کیا گیا۔آخر کس بنیاد پر اور کس وجہ سے اس نظام کو ترجیح دی گئی ؟ کیا کبھی ان ذمے داران کا تعین کیا گیا ؟ کوئی کارروائی کی گئی ؟ آج کے متعلق بھی ایک سوال پھن اٹھائے کھڑا ہے ۔ کیا یہ نیا نظام ٹھیک فیصلہ ہے ؟کیا یہ کارکردگی بڑھا سکے گا ۔ ؟بچت کرواسکے گا ۔ ؟لیکن سب سے بڑا سوال آئندہ کل کا ہے ۔ پاکستان میں آئی ٹی کے ماہرین کی کمی نہیں ہے ۔ کیا کبھی ایسا ممکن ہوگا کہ پی آئی اے کاآپریٹنگ سسٹم بنانے اور چلانے والی کمپنی بھی پاکستانی ہو ؟گزشتہ کل کی بات چھوڑ دیں ۔ آج کی بات بھی چھوڑ دیں ۔ لیکن کیا آئندہ کل کی بات بھی کرنا چھوڑ دیں ؟