یہ جولائی کا مہینہ ہے ،کہیں شدید گرمی،کہیں طوفا نی بارشیں۔یہ دوسال اُدھر کی بات ہے۔یہی دِن تھے،سن تھا دوہزاراَٹھارہ۔ملک بھر میں نئے انتخابات ہونے جارہے تھے۔جولائی عام انتخابات کا مہینہ تھا۔ملک کی انتخابی تاریخ میں یہ گیارھویں عام انتخابات تھے اور دوہزارآٹھ کے بعد دوسری بار اقتدار ایک سیاسی جماعت سے دوسری سیاسی جماعت کو منتقل ہو ناتھا۔ انتخابی عمل کا یہ تسلسل ،حقیقی تبدیلی کا نشان سمجھاجارہا تھا۔پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی آمنے سامنے تھیں۔پی ایم ایل این کے کئی اہم رہنما پی ٹی آئی کا حصہ بن چکے تھے۔یوں پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری پڑچکا تھا۔یہ الیکشن پی ایم ایل این کے رہنما شہباز شریف کی سیاسی بصیرت کاامتحان بھی تھاکہ میاں نوازشریف نااہل قرار پا کر سیاسی منظر نامہ سے ہٹ چکے تھے۔دوسری طرف عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کا سارازور پنجاب پر تھا۔ پچیس جولائی کا دِن آن پہنچتا ہے اور پی ٹی آئی میدان مارلیتی ہے۔وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت سازی اس کے حصہ میں آتی ہے ۔ تیسری سیاسی قوت اقتدار کے ایوانوں میں آتی ہے تواس کے ساتھ عوام کی اُمیدیں بندھ جاتی ہیں۔سب سے بڑی اُمید معاشی خودانحصاری کی ہوتی ہے۔عمران خان ،وزیرِ اعظم بننے سے پہلے اپنی تقریروں میں معاشی خودانحصاری کے نعرے کو بہت اہمیت دیتے تھے اور عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانے کو بھیک تصور کرتے تھے ۔عمران خان کے وزیرِاعظم بننے کے فوری بعد تک ،اِن کو معاشی خودانحصاری کا پاس تھا،لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہ گئے تو متبادل کیا کرنا ہوگا،پیسے کہاں سے آئیں گے ،ملک کیسے چلے گا؟جب یہ سوالات اِن کو تنگ کرتے تو یہ قوم سے خطاب کرنے سرکاری ٹی وی کی سکرین پر جلوہ افروز ہوتے ،کبھی بتاتے کہ ہمارے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں تو کبھی ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں سناتے۔ خیر!ایک دِن اِن کو سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں اور آئی ایم ایف سے جان چھڑوانے کا متبادل معاشی پلان سمجھ آجاتا ہے اور یہ وزیرِ اعظم ہائوس میں موجود بھینسوں کو فروخت کرنے کا اعلان کردیتے ہیں۔اِن کے ساتھی اسد عمر کی اس اعلان کے ساتھ ہی تھکن دُور ہوجاتی ہے ۔مگر بھینسیں سخت مایوس کرتی ہیں ۔ آخرِ کار وزیرِ اعظم کے ذہن سے معاشی خودانحصاری کے نعرے محو ہوجاتے ہیں اور آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایاجاتا ہے۔یہ دروازہ کھل تو جاتا ہے ،مگر ملک میں معاشی پہیہ سست پڑ چکا ہوتا ہے۔ایک وقت تک تو اِن کو معاشی پہیہ کے سست پڑنے کا معلوم ہی نہیں پڑتا اور وزیرِ اعظم بڑے بڑے نعروں کا تسلسل جاری رکھتے ہیں۔پچاس لاکھ گھر بنانے کا اعلان ہوتا ہے ،ایک کروڑنوکریوں اور نوجوانوں کو معاشی طورپر مضبوط کرنے کے لیے قرضوں کی سکیم شروع کی جاتی ہے۔مگر کچھ ہی دِنوں میں احساس ہوتاہے کہ گھر بنانے کے لیے اور قرضہ دینے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے تو ایک بار پھر سرکاری ٹی وی کی سکرین پر جلوہ نمائی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کہانیاں سنائی جاتی ہیں ۔ وقت کا پہیہ رینگتارہتا ہے۔معاشی پہیہ کی رفتار سست سے سست پڑتی چلی جاتی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں صورتِ حال بگڑتی ہے تو وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کو ایک موضوع مل جاتا ہے ،پوری توجہ اس ایشو پر دی جاتی ہے ،جب اس بات کا احساس ہوتا ہے تو سرکاری ٹی وی کی سکرین پھر سے جگمگااُٹھتی ہے،احتساب،کرپشن ،پر تقریریں نشرہوتی ہیں۔دوہزار بیس کا سورج اُبھرتا ہے ،اپوزیشن صف آرائی کا سوچتی ہے ، تو کورونا عذاب کی صورت نازل ہو جاتا ہے۔ حکومت کو کئی ماہ کے لیے ایک موضوع مل جاتا ہے۔ یہ اپنی خفت کو چھپانے کے لیے لوگوں کے معاشی مسئلے کو خوب اُچھالتی اور جذباتی رنگ دیتی ہے ،دیہاڑی دار طبقے کا لفظ گونج اُٹھتا ہے اور ضرورت مندوں کو بارہ بارہ ہزار دیا جاتا ہے ۔حکومت اس کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتی ہے۔ جولائی دوہزار اَٹھارہ سے جولائی دوہزار بیس ،پاکستان تحریکِ انصاف کوبرسرِاقتدار آئے اور عمران خان کو وزیرِ اعظم بنے ،دوبرس ہونے کو آئے،مگر پاکستان تحریکِ انصاف کے تمام رہنماایک آدھ (فوادچودھری)کے علاوہ ہر ایک ہر موقع پر اور ہر سوال کے جواب میںیہ کہتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں نے سارے مسائل پیدا کیے ،بالخصوص دوہزار آٹھ سے دوہزار اَٹھارہ تک کی دوحکومتوں نے ملک کو اس سطح پر لاکھڑا کیا۔وزیرِ اعظم عمران خان ہمہ وقت اپنی ’’صلاحیتوں‘‘کا اعتراف کروانے کی مساعی میں رہتے ہیں۔ کورونا وباء کے دوران حکومتی انتظامات کے حوالے سے اِن کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان ،اُن کی کابینہ ،وزراء اور پی ٹی آئی رہنمائوں کو اس بات کایقین ہے کہ اُن کی وفاق اور دو صوبوں میں حکومت ہے؟اگر اُنہیں یہ یقین ہے تو پھر عام آدمی کو اس بات کا یقین کیوں نہیں آرہا؟ وزیرِ اعظم اور ان کی ٹیم کی بائیس سال کی سیاسی جدوجہد ہے اور اُنہوں نے اس عرصہ میں لوگوں کے مسائل کے بارے ہی سوچا‘‘وہ قوم کو بتاسکتے ہیں کہ اُنہوں نے مسائل کے بارے کیا سوچاتھا؟