پہلے دانشمند و پر مزاح حافظ حسین احمد نشانہ بنے‘ انہوں نے جمعیت علماء اسلام کے تنظیمی اجلاسوں میں سوال اٹھائے تھے‘ اس سے پہلے مفتی محمود کی سیاسی وراثت کا جھگڑا اٹھا تو ایک طرف مولانا سمیع الحق تھے اور دوسرف طرف مفتی محمود کے فرزند فضل الرحمن‘ جمہوریت‘ آئین اور اصول اس وقت پامال ہوئے جب خاندانی قیادت کا اصول مان کر بے اصولی کرلی گئی۔ جمعیت کے دو دھڑے ہو گئے۔ ایک کی قیادت اکوڑہ خٹک چلی گئی اور دوسرے کا مرکز ڈیرہ اسماعیل خان بن گیا۔ پہلے دھڑے میں علما کرام اور دوسرے دھڑے میں افغانستان سے آئے مہاجرین کی اکثریت تھی جنہیں پاکستانی بنا کر پیش کیا گیا۔ پہلے دھڑے نے افغانستان کے جہاد میں افرادی قوت فراہم کی۔ دوسرے دھڑے نے سیاسی مفادات کی فصل کاٹی۔ پہلے دھڑے کے قائد پر اسلام آباد کی ایک خاتون میڈم طاہرہ نے الزام عائد کیا تو وہ گوشہ نشین ہو گئے۔ دوسرے دھڑے والوں پر کرپشن‘ سرکاری زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ‘ پٹرول کے ٹھیکے‘ ہائوسنگ اور کشمیر کاز کے لیے مختص فنڈز کے غلط استعمال کے الزامات ہیں لیکن وہ گوشہ نشین ہونے کو تیار نہ تائب ہونے پر آمادہ۔ جمعیت علماء اسلام ف کا ووٹ سندھ کے شہر لاڑکانہ کے اس حلقے میں قابل ذکر ہے جہاں سے بھٹو خاندان انتخابات میں حصہ لیتا ہے۔ یہ ووٹ جے یو آئی سندھ کے امیر مولانا راشد محمودسومرو کے خاندان کے مقامی اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔ مولانا راشدسومرو ہی وہ شخصیت ہیں جن پر بھروسہ کر کے مولانا فضل الرحمن سندھ میں بڑے جلسے کرتے ہیں اور گزشتہ برس اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کیا۔ مولانا سومرو جمعیت علماء اسلام کے روایتی چہرے سے مختلف ہیں‘ کچھ مدت پہلے سندھ کے بعض علاقوں میں ہندو مندروں پر شر پسندوں نے حملوں کا اعلان کیا۔ ایک دو جگہ توڑ پھوڑ کی۔ اچھا خاصا اشتعال پھیل گیا تھا۔ یہ مولانا سومرو تھے جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مندروں اور ہندوئوں کی حفاظت کا اعلان کیا۔ انہوں نے مندروں کے باہر راتیں جاگ کر پہرہ دیا۔ مولانا سومرو ساتھ نہ دیں توسندھ میں جمعیت علماء اسلام ف کا شیرازہ بکھر جائے۔ بلوچستان میں آباد پختون قبائل میں شیرانی قبیلہ اثر و رسوخ کا حامل رہا ہے۔ مولانا شیرانی جمعیت کے تنظیمی حلقوں میں اپنی بے باک اور واضح سوچ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جب تک پیپلزپارٹی اور پھر ن لیگ کی حکومت کے اتحادی رہے اپنے اور اپنے بھائیوں کو عہدے دلوانے کے بعد مولانا شیرانی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمینی لی۔ مولانا شیرانی نے جب کبھی مرد کی شادی اور خواتین کے معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کیا ان پر تنقید ہوئی۔ مولانا شیرانی بلوچستان میں اس قدر طاقتور ہیں کہ جمعیت کے مقامی رہنمائوں اور کارکنوں کو اکٹھا کر کے وراثتی امارت کے خلاف کھڑا کرسکتے ہیں۔ مولانا شیرانی امیر جمعیت کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں امیدوار رہے ہیں۔ حالیہ دنوں مولانا شیرانی کے بیانات نے جمعیت میں داخلی انتشار کا پتہ دیا ہے۔ مولانا شیرانی کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم مفاد پرست عناصر کا ٹولہ ہے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو مفاداتی سیاست قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ دور کی کوڑی لانے والے کہہ رہے ہیں کہ مولانا شیرانی کو اسٹیبلشمنٹ نے فضل الرحمن کے خلاف متحرک ہونے کا اشارہ کیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے مولانا شیرانی کے خلاف تنظیمی کارروائی شروع کروا دی ہے‘ ساتھ ہی فرمایا کہ مولانا شیرانی کو مدت سے برداشت کر رہا ہوں۔ برداشت کرنے والے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمعیت علماء اسلام میں مدت سے موجود داخلی انتشار اب منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے۔ ریاستی نظام‘ گورننس‘ خارجہ امور‘ مالیاتی معاملات اور معیشت پر آج تک مولانا اور ان کی جماعت کا منشور سامنے نہیں آ سکا۔ ان کی پوری جدوجہد سیاست پر مذہبی رنگ چڑھانے کی کوششوں پر ہے‘ اس جدوجہد کا اصل روپ یہ ہے کہ برسراقتدار قوتوں کا دامن تھام کر مراعات بٹوری جائیں۔ سیاسی نظریے میں ریاست موجود نہیں‘ ریاست کی جگہ مراعات نے لے لی ہے۔ جب تک اقتدار ہوتا ہے ایسی تنظیم اور جماعت متحدرہتی ہے‘ اقتدار سے محرومی تعلق کے چشمے سکھا دیتی ہے‘ اپنے غیر ہونے لگتے ہیں‘ کھائے گئے زخم ہرے ہونے لگتے ہیں۔ اختلافات سر اٹھانے لگتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جانتے ہیں کہ ان کے تنظیمی تعلق کو اگر جلد کھاد نہ ملی توگلستان اجڑ جائے گا۔ سردست ان کے پاس لندن میں بیٹھے میاں نوازشریف کی شکل میں ایک کلائنٹ ہے ۔ اب ریاست ان کی کلائنٹ نہیں رہی۔ جب تک ریاست کلائنٹ نہ بنے مفادات پر مبنی تعلقات کو ہرا نہیں رکھا جا سکتا۔ مولانا کا نیٹ ورک سوکھ رہا ہے‘ انہیں اندیشہ ہے کوئی ادارہ مدد کو نہ آیا تو ان کی تنظیم بکھر جائے گی۔ لاہور میں جلسہ کامیاب بتایا گیا لیکن مولانا پریشان نظر آئے‘ مولانا نے رپورٹرز کے اچکزئی کے خطاب پر اپنا موقف ہنسی میں ٹال دیا۔ مولانا کے محافظوں نے پہلے ایاز صادق کی رہائش گاہ کا انتظام سنبھال کرن لیگ اور پی پی کے کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کی۔ بعدازاں جلسے میں بھی یہی رویہ رہا۔ اب اندر اور باہر والوں کی مسلسل شکایات کے ساتھ مولانا کیسے اپنی سیاست زندہ رکھ سکتے ہیں۔ دراڑیں گہری ہورہی ہیں‘ اپنے ہی ساتھی بند مٹھی سے ریت کی طرح نکلے چلے جا رہے ہیں۔ اپنی کمزوریوں کا اعتراف کریں تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے اس لیے آسان کام یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا کر ناکامیوں پر پردہ ڈالا جائے۔