پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی سیاسی تحریکیں ابھریں ، جن میں سے کچھ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ، تو کچھ ناکامی کا شکار ہوئیں۔ پاکستان میں ابھرنے والی ان سیاسی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن(حزب ِ اختلاف )نے اپنے اپنے دور کی حکومتوں کے خلاف متعدد اتحاد تشکیل دے کر تحریکیں شروع کیں،جن میں 1967 میں ایوب خان کے خلاف شروع ہونے والی تحریک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ 30 اپریل 1967 کو نواب زادہ نصر اللہ خان نے پانچ پارٹیوں پر مبنی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی اتحا د تشکیل دیااوراس اتحاد کے نتیجے میں چلنے والی تحریک نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اس تحریک میں تحریک ِ استقلال کے بانی ایئر مارشل اصغر خان پیش پیش تھے اور اسی تحریک کے دوران پیپلر پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو نے خود کو سیاسی طور پر مستحکم کیا اور وہ ایک نمایاں لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے، تاہم بعد ازاں اس اتحاد کا نام بدل کر پاکستان ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی رکھ دیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تحریکوں میں یہ پہلی تحریک تھی، جس کا دبائوحکومت نے محسوس کیا اور ایوب خان مستعفی ہوئے اور اقتدار یحییٰ خان نے سنبھال لیا،جس کے بعد ایک لیگل فریم ور ک آ ٓ رڈر طے ہوا اور 1970 میں عام انتخابات کروائے گئے، لیکن ان انتخابات کے فوراً بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تنازع پیدا ہوااور ملک تقسیم ہو گیا۔1971میں سقوط بنگال کے بعد پہلی مرتبہ 1977 میں انتخابات منعقد ہوئے تو پیپلز پارٹی کے خلاف 9سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کر’’پاکستان قومی اتحاد‘‘(پاکستان نیشنل الائنس) پی این اے کے نام سے ایک اتحاد بنایا۔پی این اے کا نصب العین ملک میں نظام مصطفے ٰ کا نفاذ تھا۔ اس تحریک نے عوام میں خوب پذیرائی حاصل کی ، لیکن اس کے با وجود یہ اتحاد انتخابات میں وہ نتائج حاصل نہ کر سکا، جس کی اسے توقع تھی، لہذا انتخابات کے بعد پی این اے نے بھٹو حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی تحریک شروع کر دی ، جودیکھتے ہی دیکھتے سول نافرمانی کی تحریک میں بدل گئی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور بڑا اتحاد ایم آر ڈی (موومنٹ فار ریسٹوریشن فار ڈیموکریسی) بھی قابل ِ ذکر ہے، جو1981 میں بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی قیادت میں ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف قا ئم ہوا اورپاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن کا یہ اتحاد طویل مدت (1981 سے 1988 )تک قائم رہا۔ اس کے علاوہ1988 کے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آ ٓ ئی) کے نام سے بھی 9 جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا، جس میں مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور نیشنل پیپلز پارٹی و دیگر سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔6 فروری 1981کو جمہوریت کی بحالی کے لیے میں ایم آر ڈی تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ جنرل ضیا الحق کے خلاف اس تحریک کی قیادت بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کی،ایم آر ڈی کی تحریک میں10 سے زیادہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں اوراس تحریک کے متعد د سیاسی رہنما ئوں اور کارکنوں نے جیلیں کاٹیں اور کوڑے بھی کھائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر بھی کئی اتحاد بنے، جن میں ایک اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد تھا، جس کی بنیاد پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی رہنمائوں نے رکھی اور اس کی قیادت غلام مصطفیٰ جتوئی نے کی۔ یہ اتحا د بھی پی این اے کی طرح 9 سیاسی و مذہبی پارٹیوں پرمشتمل تھا۔ یہ اتحاد 1988 کے الیکشن سے پہلے وجود میںآیا اوراس اتحاد کو پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی، تاہم اس اتحاد کو انتخابات میں نمایاںکامیابی نہ مل سکی ، اس کے باوجودیہ اتحاد صوبہ پنجاب میں کامیاب ہوکرحکومت بنانے کی پوزیشن میں آگیا ، جبکہ دوسری طرف قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی 94 نشستوں پر انتخاب جیت کر مرکز ی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔1990 میں ہونے والے انتخابات سے قبل بھی دوبڑے اتحاد بنے، جن میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس اور اسلامی جمہوری اتحاد جو کہ پہلے سے بنا ہوا تھا، سامنے آئے۔آئی جے آ ئی کی قیادت نواز شریف ،جبکہ پی ڈی اے کی قیادت بے نظیر بھٹو نے کی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ان انتخابات میں سیاست دانوں میں خوب پیسہ تقسیم کیاگیا اوراسلامی جمہوری اتحاد ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 106 نشستوں پر الیکشن جیت کر مر کز میں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آگیا،جبکہ مدمقابل پی ڈے اے کو صرف 45 سیٹوں پر کامیابی ہوئی۔ 1997 میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ایک اتحاد بنا، جس کی قیادت بھی نواب زادہ نصراللہ خان نے کی اوریہ اتحادنواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا ، لیکن 12کتوبر 1999 کو یہ اتحاد جنرل پرویزمشرف کی طرف سے اقتدار سنبھالتے ہی ختم ہو گیا۔ اس دوران ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک بار پھر 15 سے زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو ئیں اور ایک نئے سیاسی اتحاد اور تحریک کی بنیاد رکھی گئی ، جس کا نام ’’تحریک بحالی جمہوریت‘‘ اے آر ڈی رکھا گیا۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر بر سر اقتدار آگئی اور ان انتخابات کے بعد کوئی نیا اتحاد نہ بنا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 2013کے انتخابات میں بھی کوئی اتحاد نہ بنا؛ البتہ کہیں کہیں مختلف جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ضرور ہوئی۔ الغرض پاکستان کی سیاسی میں تقریباً ایک درجن سے زائد اتحاد بن چکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ابھرنے والی انھی تحریکوں کو کامیابی ملی، جن میں یا تو بھر پور عوامی طاقت شامل تھی یا پھر ایسی تحریکیں کامیاب ہوئیں، جن کو مقتدر حلقوں کا تعاون حاصل رہا، وگرنہ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کئی تحریکوں کے نتیجے میں نہ تو کسی قسم کی تبدیلی آئی اور نہ ہی وہ کسی قسم کی نمایاں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔اب سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کو تاریخ ایک تحریک کے طور پر یاد بھی رکھے گی یا یہ صرف مفاد پرست اتحاد ثابت ہو گا؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں جنوری 2021 تک انتظار کرنا ہو گا۔