پی ڈی ایم کے سربراہان اور خصوصاًمولانا فضل الرحمن اس بات کو مانیں یا رَد کریں،لیکن یہ حقیقت ہے کہ لاہور جلسہ کے بعد یہ اتحاد کمزور پڑ کر اپنے اہداف سے ہٹ چکا ہے۔لاہور جلسہ میں عوام کا کم تعداد میں شرکت کرنا ،پی ڈی ایم کو کمزور کر گیا تھا۔ایسا ہی دوہزار چودہ کے دھرنا کے موقع پر ہواتھا،جب پی ٹی آئی رہنما کنٹینر پر چڑھ کر بعض موقع پر خالی کرسیوں سے خطاب کیا کرتے تھے۔دوہزار چودہ کے دھرنا میں جیسے ہی عوام کا جوش و جذبہ کمزور پڑا ،دھرنا بھی کمزور پڑتا گیا۔یہاں ایک پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ عوام کی طاقت ہی اصل طاقت ہے۔ہر دوبار عوام کی طاقت کم پڑی تو سیاسی پارٹیوں کے احتجاج کمزور پڑکر اپنے ہدف حاصل کرنے سے معذور ٹھہرے۔عوام کی طاقت کا اصل مظاہرہ انتخابات کے دِن ہوتے ہیں۔انتخابات میںدھاندلی کا جتنا مرضی شور اُٹھے لیکن نتائج عوام کی آواز سے ہم آہنگ قرار پاتے ہیں۔لیکن سیاسی جماعتیں عوام کی اصل طاقت سے ہمیشہ ناواقف رہتی ہیں۔البتہ یہ ہمہ وقت عوام کی طاقت کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال میں لاتی پائی جاتی ہیں۔مگر عوام کی طاقت کا درست اور پورا فائدہ اُٹھانے سے قاصر رہتی ہیں۔دوسری طرف عوام ہیں ،جنھیں اپنی طاقت کا احساس زیادہ تر نہیں ہے۔لیکن ہر موقع پر عوام کی طاقت نے وقت کے دھارے کو بدلا ہے۔ایک وقت ایسا تھا ،جب سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم عوام کے لیے اُن کی اُمنگوں ، مسائل کے حل اور طاقت کے اظہار کا وسیلہ تھے،اب یہ پلیٹ فارم کئی نوع کے تشکیل پاچکے ہیں،جہاں سے عوام اپنی آواز کی طاقت کا جائزہ لے سکتے ہیں۔میڈیااور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اس کا ایک ثبوت ہیں،حالیہ عرصہ میں میڈیااور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے سماجی اصلاح کے کئی پہلو پایۂ تکمیل کو پہنچے ہیں۔جب مَردان کی عبدالولی خان یونی ورسٹی میں مشال خان نام کے ایک نوجوان کوبے دردی سے مارا گیا ،تو اس ظلم کے خلاف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ایسی آواز اُٹھی کہ جس نے تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔اسی طرح حیات بلوچ کے واقعہ کو دیکھ لیں،حیات بلوچ پر ظلم کرنے والا اہلکار ،سزائے موت کا حق دار قرار دیا جاچکا ہے ،یہ سب بھی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے اُٹھنے والے عوام کے احتجاج سے ہوا۔نیز اسلام آباد میں پولیس کے چند اہلکاروں کی جانب سے ایک نوجوان کو جب سترہ گولیاں ماری گئیں تو سوشل میڈیا چیخ اُٹھا ،یہ چیخیں اس قدر بلند تھیں کہ انصاف کے دروبام ہل کر رہ گئے۔یہ عوام کی طاقت ہے ،جو ایسا بند باندھ دیتی ہے ،جس سے ٹکرانے والا اپنا نقصان کرتا ہے ،مگر پی ڈی ایم کا اتحاد عوام کی اس طاقت کو نہ سمجھ سکا اور نہ ہی بروئے کار لاسکا۔پی ڈی ایم کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ عوام کو کیسے اپنا ہم سفر بنایاجاسکتا ہے؟یہی پی ڈی ایم کا المیہ ہے ۔پی ڈی ایم عوام کے مسائل سے آگاہ نہیں ،اس لیے وہ عوام کی طاقت کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں بروئے کار لانے میں ناکام ٹھہر چکی ہے۔پی ڈی ایم کی ناکامی دَرحقیقت سیاسی نظام میں مزید مسائل کو جنم دے کر اس کو لاغر کرے گی۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جو نعرے پھوٹے ،اُن کا تعلق عوام کے فوری مسائل سے ہرگز نہیں تھا۔اِن نعروں کولگانے کا درست وقت دوہزار اَٹھارہ کے انتخابات کے فوری بعد تھا،یا پھر یہ وقت اگلے انتخابات کے دِن ہوسکتے ہیں۔اس وقت جو نعرے لگائے گئے ،اُس کا تاثر عوام کے اندر منفی پہنچا۔پڑھے لکھے عوام اور سیاسی ورکر زکو نعروں کی بدولت یہ احساس ہوا کہ سیاسی اشرافیہ اپنی جنگ لڑرہی ہے اور اپنی تضحیک کا بدلہ لے رہی ہے ۔پی ڈی ایم کی تشکیل ستمبر سے لمحہ ٔ موجودتک مہنگائی کی شرح بڑھی ہے ،اگرچہ وزیرِ اعظم اور حکومتی وزراء یہ کہتے ہوئے پائے جارہے ہیں کہ مہنگائی کی شرح میں کمی آچکی ہے،لیکن پی ڈی ایم کا اتحادعوام کی مشکلات کو اپنی سیاسی تحریک کا مرکزی نقطہ بنانے سے قاصر رہا۔پی ڈی ایم کا سارا زور عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے پر ہے ، حالانکہ یہ سارازوروزیرِ اعظم کے طرزِ حکومت پر ہونا چاہیے تھا۔اب تو عمران خان وزیرِ اعظم بن چکے ،بلکہ وزیرِ اعظم بنے تیس ماہ ہوچکے ہیں،پی ڈی ایم کے لیے یہ تیس ماہ بہت اہم ہوسکتے ہیں۔لیکن پی ڈی ایم کے سیاسی احتجاج میں یہ تیس ماہ کا عرصہ موجود ہی نہیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیرِ اعظم اور اُن کی حکومت اس احتجاج کے بعد مزید مضبوط ہوچکے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کو اب کیا کرنا چاہیے؟پی ڈی ایم کو عوام کا سوچنا چاہیے۔ لوگوںکی مشکلات کو اپنے احتجاجی منشور میں مرکزی جگہ دینی چاہیے۔وزیرِ اعظم کے طرزِ حکمرانی پر چوٹ کرنی چاہیے۔اس چوٹ کے لیے مہنگائی ،بے روزگاری،بے چینی ،حکومت کا اپنے وعدوں پر پورانہ اُترنا،عمران خان کا محض خواب دکھاتے رہنا،جیسے اوزار ہوسکتے ہیں۔اِن اوزاروں سمیت اگر پی ڈی ایم نئے سرے سے میدان میں اُترتی ہے تو عوام کی طاقت کو حاصل کرسکتی ہے۔اگر یہ وقت گزرگیا تو پھر مذکورہ اوزار بھی زنگ آلود ہوجائیں گے،زنگ آلود ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں اُترنا محض حماقت ہوسکتی ہے۔نیز اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ عمران خان یعنی پی ٹی آئی کی جانب سے ہر پارٹی پر قائم کیے گئے تاثر کو زائل کرنے پر توجہ دے۔اگر ہر پارٹی پرلگا تاثر مزید چند ماہ قائم رہا تو یہ پارٹیاں اگلا الیکشن بھی شاید نہ جیت پائیں۔مثال کے طورپر پی ٹی آئی ،ن لیگ کے بارے کہتی ہے کہ اس پارٹی کے رہنما چور ہیں،عوام کی کثیر تعداد پی ٹی آئی کی جانب سے قائم کردہ تاثر کے زیرِ اثر آچکی ہے،کیا ن لیگ کے پاس ایسا کوئی طریقہ ہے کہ وہ اس تاثر کو ختم کرسکے؟شاید نہیں۔ذرا سوچیں یہ تاثر اگلے الیکشن تک بھی قائم رہاتو ن لیگ کا کتنا نقصان ہوگا؟